Search This Blog

Sunday, September 18, 2022

سیلاب کے بعد بیماریوں اور اموات کی صورت میں دوسری آفت کا خطرہ

ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ سیلاب کے بعد پاکستان کو بیماریوں اور اموات کی صورت میں دوسری آفت کا خطرہ ہے۔سربراہ عالمی ادارہ صحت ٹیڈروس نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لاکھوں افراد کی زندگیاں اس وقت خطرے میں ہیں۔سیلاب کے بعد پاکستان کو بیماریوں اور اموات کی صورت میں دوسری آفت کا خطرہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے پاکستان میں صحت کے نظام کو شدید متاثر کیا ہے۔ صحت کے مراکز سیلاب میں ڈوب گئے ہیں ۔سربراہ عالمی ادرہ صحت نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں لوگ غیر محفوظ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ جس سے ہیضہ اور دیگر بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔یہ بھی پڑھیں:ان کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت پاکستان کیلئے امداد کی نئی اپیل جاری کرے گا۔ ٹیدروس نے دنیا بھر کےعطیات دینے والوں سے زندگیاں بچانے کے لیے دل کھول کر امداد کی گزارش کی ہے،

Thursday, June 16, 2022

آلودگی نے ہر انسان کی زندگی کے دو سال کم کر دیے: تحقیق

آلودگی نے ہر انسان کی زندگی کے دو سال کم کر دیے: تحقیق

بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی نے عالمی سطح پر ہر انسان کی اوسط عمر اور زندگی کی متوقع مدت دو سال کم کر دی ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ آلودگی کے باعث بننے والی یہ صورت حال ایڈز، سگریٹ نوشی یا دہشت گردی کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہے۔امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ( ای پی آئی سی) کی منگل کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا کی 97 فیصد آبادی ان علاقوں میں رہائش پذیر ہے جہاں آلودگی کی سطح مقررہ معیار سے کہیں زیادہ ہے۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے رہائشیوں نے سموگ کی وجہ سے اپنی زندگی کے پانچ سال کھو دیے ہیں جبکہ انڈیا کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہاں 2013 کے بعد سے فضائی آلودگی 44 فیصد بڑھی ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔تحقیق کے مطابق اگر چین عالمی ادارہ صحت کے معیار تک پہنچ جاتا ہے تو وہاں کی اوسط عمر دو اعشاریہ چھ سال بڑھ سکتی ہے۔چین وہ ملک ہے جہاں 2013 سے متوقع اوسط میں عمر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ اس نے آلودگی کے خلاف جنگی بنیادوں پر کام شروع کیا تھا اور پی ایم دو اعشاریہ پانچ کو 40 فیصد تک کم کر دیا تھا۔تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی کو ایک اہم عوامی مسئلے کے طور پر نہیں دیکھا گیا اور ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے جبکہ اس سے نمٹنے کے لیے ابھی تک فنڈز بھی ناکافی ہیں۔2013 کے بعد سے سب سے زیادہ آلودگی انڈیا میں بڑھی ہے ای پی آئی سی نے آب و ہوا کے معیار کے حوالے سے نئی فہرست جاری کی ہے جس کے لیے سیٹیلائٹ ڈیٹا کو استعمال کیا گیا ہے جس سے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچانے والے اجزا (پی ایم 2.5) کے آب و ہوا میں تناسب کا اندازہ لگا گیا ہے۔ای پی آئی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر عالمی سطح پر پی ایم 2.5 کی سطح پانچ مائیکروگرام فی کیوبک میٹر تک نیچے آ جائے جو کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے منظورشدہ ہے، تو اوسط متوقع عمر میں دو اعشاریہ دو سال کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ای پی آئی سی کے ڈائریکٹر برائے ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کریسٹا ہیسنکوف کا کہنا ہے کہ ’اب آلودگی کے حوالے سے معلومات میں بہتری آئی ہے اور یہ حکومتوں کے لیے ایسا معاملہ ہے جس کو فوری طور پر ترجیح دینی چاہیے۔‘آلودگی کے حوالے سے کوئی ملک ڈبلیو ایچ او کے معیار تک نہیں پہنچا (فوٹو: اے ایف پی)ای پی آئی سی کے اعداد و شمار پچھلی تحقیقات پر مبنی تھے جن میں بتایا گیا تھا کہ پی ایم ٹو پوائنٹ فائیو میں مسلسل 10 مائیکروگرام فی کیوبیک میٹر کا اضافہ اوسط عمر کو ایک سال کم کر دے گا۔2021 میں فضائی آلودگی کے حوالے سے ہونے والے ایک سروے کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس وقت تک کوئی بھی ملک عالمی ادارہ صحت کے سٹینڈز تک نہیں پہنچا جو کہ پانچ مائیکروگرام ہے۔

حوصلہ افزا پروان

Friday, March 18, 2022

گورنر راج کیا ہے

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے سندھ میں گورنر راج کے بیان نے پھر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ملکی سیاسی تجزیئے جو پہلے تحریک عدم اعتماد اور اس کے بعد سندھ ہاؤس کے اردگرد گھوم رہے تھے اب گورنر راج کی بحث میں الجھ گئے ہیں۔ ایک طرف کچھ وفاقی وزرا سندھ میں گورنر راج لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب سندھ حکومت بھی اس طرح کے بیانات کے خلاف بھرپور جواب دے رہی ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی سندھ کے رہنما فردوس شمیم بھی صوبے میں گورنر راج کا مطالبہ کرچکے تھے۔ گورنر راج کے حق میں بولنے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 235 کے تحت سندھ میں ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ صوبے کی صورتِ حال تیزی سے خراب ہوری ہے، سندھ میں گورنر راج لگانے میں کوئی برائی نہیں۔ اس پر سندھ حکومت کا مؤقف ہے کہ گورنر راج کا شوشہ کئی بار چھوڑا گیا۔ آرٹیکل 235 میں نہیں بلکہ 234 میں ایمرجنسی کا ذکرہے۔گورنر راج میں کیا ہوتا ہے؟گورنر راج کے دوران صوبے میں تمام تراختیارات گورنر کے پاس آجاتے ہیں اور گورنر چونکہ وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے لہٰذا اس کے فیصلے وفاق کی مشاورت سے کئے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کا بڑا اختیار بھی گورنر کے پاس آجاتا ہے۔ اس کے علاوہ گورنر کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ وہ صوبے میں بگڑتی صورت حال پہ قابو پانے کیلئے فوج کو طلب کرلے جوکہ انتہائی بڑا اختیار ہے۔ عام حالات میں یہ اختیار صوبے کے وزیرِاعلیٰ اور صدرِمملکت کے پاس ہوتا ہے۔آئینِ پاکستان کے تحت کسی بھی صوبائی حکومت کی ناکامی پر قانون وفاق کی جانب سے صوبے میں گورنر راج لگایا جاسکتا ہے، جس کی مدت کم از کم چھ ماہ ہوتی ہے۔ ارکان، وزرا ، مشیران ،اسپیکر یہاں تک کہ صوبائی حکومت کا سب سے بڑا عہدہ یعنی وزیرِاعلیٰ بھی کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، جب کہ عام حالات کی بات کی جائے تو صوبائی گورنر کے پاس بہت زیادہ اختیارات نہیں ہوتے۔ ان کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ صوبے کی سلامتی کی دیکھ بھال کرے، صوبے کی روابط وفاق اور دیگر صوبوں سے مضبوط رکھے، جب کہ صوبے کے گورنر کی تقرری وزیرِاعظم کرتا ہے۔پاکستان میں ماضی میں کئی بار گورنر راج کی گونج سنائی دی گئی ہے۔ ایسے مواقع بھی آئے جب صوبائی گورنروں کو اضافی و مکمل اختیارات ملے اور اس صورت میں جب صوبائی اسمبلی تحلیل کر دی گئی ہو، تب انتظامی اختیارات براہ راست گورنر کے زیر نگیں آئے۔ سال 1958ء سے 1972ء تک اور سال 1977ء سے سال 1985ء کے مارشل لا کے دوران صوبوں میں گورنر راج نافذ رہا ۔ جب کہ 1999ء سے 2002ء کے گورنر راج کے دوران میں گورنروں کو اختیارات حاصل رہے۔سندھ میں کب کب گورنر راج لگاسندھ میں دو مرتبہ براہ راست گورنر راج نافذ رہا، اس دوران 1951ء سے 1953ء میں میاں امین الدین اور 1988ء میں رحیم الدین خان گورنر تھے۔ڈاکٹر عشرت العباد پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل مدت پوری کرنے والے گورنر ہیں جو 14 سال مسلسل گورنر کے عہدے پر برقرار رہے ۔ انہوں نے 3 حکومتیں دیکھیں، جب کہ عام طور پر گورنر کا دورِ حکومت 5 سال کا ہوتا ہے۔بلوچستان میں گورنر راجسال 2013 میں کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے موقع پر اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کرنا پڑا تھا۔ راجہ پرویز اشرف نے آئین کے آرٹیکل234 کے تحت کوئٹہ میں گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔آئین کے آرٹیکل234 کے تحت متعلقہ صوبہ کے گورنر کی رپورٹ پر اگر صدر مملکت کو یقین ہو جائے کہ صوبہ کی حکومت آئین اور قانون کے مطابق معاملات نہیں چلا سکتی تو وہ گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔صدر کے احکاماتگورنر راج نافذ کرنے کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہے کہ پارلیمینٹ کے دونوں ایوان اپنے الگ الگ اجلاسوں میں کسی صوبہ میں گورنر راج کے نفاذ کے لئے قراردادیں منظور کرلیں تو صدر مملکت ان پر عملدرآمد کرتے ہوئے گورنر راج کے نفاذ کا صدارتی فرمان جاری کرتے ہیں۔اٹھارویں ترمیماٹھارویں آئینی ترمیم سے قبل کسی صوبہ میں پارلیمینٹ کے ذریعے گورنر راج کے نفاذ کے لئے ضروری تھا کہ ایسی قرارداد قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی جائے تا ہم اب دونوں ایوانوں میں الگ الگ قرار دادیں منظور ہونا ضروری ہے۔

Thursday, October 07, 2021

بلوچستان زلزلہ: ہرنائی میں شدید تباہی، درجنوں مکانات منہدم اور 20 افراد ہلاک

پاکستان صوبہ بلوچستان کے علاقے ہرنائی میں بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے کنٹرول روم کے مطابق اس زلزلے کے نتیجے میں کم از کم 20 افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں اور متاثرہ علاقے میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ ہرنائی میں لیویز فورس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ہرنائی شہر اور دیگر علاقوں میں زلزلے سے متعدد گھر گر گئے ہیں جہاں سے لوگوں کو نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے مقامی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ زلزلے سے 100 سے زیادہ کچے مکانات منہدم ہوئے ہیں۔زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کی شدت ریکٹر سکیل پر پانچ اعشاریہ نو تھی جبکہ زمین میں اس کی گہرائی پندرہ کلومیٹر تھی۔ زلزلے کا مرکز بلوچستان کے علاقے ہرنائی کے قریب تھا۔ہرنائی اور بلوچستان کے متعدد علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب تین بج کر دو منٹ پر محسوس کیے گئے ہیں۔ہرنائی کوئٹہ شہر کے مشرق میں واقع ہے اور اس کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں بڑی تعداد میں کوئلے کی کانیں ہیں۔بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ زلزلے کی وجہ سے ہرنائی میں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے اور ضلع میں ایمرجنسی نافذ کر کے امدادی سرگرمیوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔وزیر داخلہ نے بتایا کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کو متحرک کرکے ہیوی مشینری ہرنائی کے لیے روانہ کردی گئی ہے۔ہرنائی میں مقامی صحافی یزدانی ترین نے بتایا ہے کہ زلزلے کے جھٹکے بہت شدید تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہرنائی شہر اور اس کے نواحی علاقوں میں گھروں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ہرنائی میں لیویز فورس کے ہیڈکوارٹر کے ایک اہلکار نے بتایا کہ زلزلے کے جھٹکے ہرنائی، شاہرگ اور دیگر علاقوں میں محسوس کیے گئے۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔یہ بھی پڑھیےجب 45 سیکنڈ میں پورا کوئٹہ شہر ملبے کا ڈھیر بن گیاہرنائی میں کچے گھر گر گئے، دیواروں میں دراڑیںان کا کہنا تھا کہ متعدد علاقوں میں زلزلے سے گھروں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ بعض مقامات پر گھروں کے گرنے سے جانی نقصان ہوا ہے۔ ہرنائی میں سول ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر منظور نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ زلزلے کی وجہ سے پانچ بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ درجنوں افراد زخمی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بعض شدید زخمیوں کو کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔زلزلے کی خوف کی وجہ سے لوگ گھروں سے باہر نکل گئے جبکہ شہر کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔اطلاعات کے مطابق زلزلے کے جھٹکے کوئٹہ کے علاوہ مستونگ، پشین، سبی اور متعدد دیگر علاقوں میں بھی محسوس کیے گئے تاہم ہرنائی کے علاوہ دیگر علاقوں سے تاحال جانی اور مالی نقصانات کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہیں۔بلوچستان کی پارلیمانی سیکریٹری برائے صحت ڈاکٹر ربابہ بلیدی نے کہا ہے ہرنائی اورکوئٹہ سمیت دیگرعلاقوں میں زلزلے کے ممکنہ نقصانات کے پیش نظر طبی ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ کوئٹہ، ہرنائی اور گرد و نواح میں نقصانات کی اطلاع کے پیش نظر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال سمیت تمام مراکز صحت میں ڈاکٹرز اور عملہ ہنگامی بنیادوں پر طلب کر لیا گیا ہے۔

Tuesday, October 05, 2021

پاکستان سمیت دنیا بھر میں واٹس ایپ، فیس بک اور انسٹاگرام کی سروسز متاثر

پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں واٹس ایپ، فیس بک اور انسٹاگرام کی سروسز متاثر ہوگئیں جس وجہ سے لاکھوں صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

دنیا بھر میں مذکورہ سوشل میڈیا ایپلیکیشن کی سروس پاکستانی وقت کے مطابق تقریباً رات ساڑھے آٹھ بجے متاثر ہوئیں اور محض ٹوئٹر سماجی رابطوں کی بڑی ویب سائٹ تھی جو بحال رہی لہٰذا صارفین ٹوئٹر پر ہی اپنی مایوسی کا اظہار کرتے رہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ کے ٹوئٹر پر موجود آفیشل اکاؤنٹ بدستور کام کرتے رہے اور وہ ٹوئٹر کے ذریعے ہی اپنے صارفین سے رابطے میں رہیں۔

تینوں ایپلیکیشنز کی سروسز میں تعطل کو تقریباً 3 گھنٹے سے زائد ہوچکا ہے جس کے باعث صارفین کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔

اس حوالے سے ٹوئٹر پر سوشل میڈیا صارفین ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے طنز و مزاح کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور ساتھ ہی تنقید بھی کی جارہی ہے۔

واٹس ایپ کا ردعمل

دوسری جانب واٹس ایپ نے ٹوئٹر پر بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہمیں علم ہے کہ ’بعض‘ لوگوں کو واٹس ایپ کے استعمال میں مسئلہ درپیش ہے، ہم چیزوں کو معمول پر لانے کیلئے کام کررہے ہیں اور اس حوالے سے جلد ہی آگاہ کیا جائے گا۔

Monday, July 05, 2021

کرنل شیر خان کا 22 واں یوم شہادت

کرنل شیر خان کا 22 واں یوم شہادت

روزنامہ پروان کراچی 🗞️
رپورٹر: عبدالغنی پالاری

پاک فوج کے بہادر سپوت اور معرکہ کارگل کے ہیرو کیپٹن کرنل شیرخان شہید کا آج 22واں یوم شہادت منایا جارہا ہے۔ کیپٹن کرنل شیرخان شہید 1970 کو صوابی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین نے پاک فوج کی محبت میں ان کا نام ہی کرنل شیر خان رکھ دیا۔ گورنمنٹ کالج صوابی سے انٹرمیڈیٹ مکمل کرنے کے بعد انہوں نے ائیرمین کے طور پر پاکستان ائیر فورس میں خدمات پیش کیں۔1994 میں انہوں نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ کرنل شیرخان شہید کے چہرے پہ ہمیشہ ایک فوجی کی مسکراہٹ رہتی تھی جس کی وجہ سے شیرا کے لقب سے مشہور تھے۔ 1998 میں انہوں نے خود کو لائن آف کنٹرول پر تعیناتی کے لیے پیش کیا جہاں وہ ستائیسویں سندھ رجمنٹ کی طرف سے ناردرن لائن انفنٹری میں تعینات ہوئے۔ کیپٹن کرنل شیر خان شہید نے 1999 میں بھارت کے ساتھ کارگل کی جنگ کے دوران مادر وطن کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ شہادت کے وقت دشمن بھارتی فوج نے انہیں گھیر لیا اور ہتھیار ڈالنے کا کہا لیکن انہوں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ ان کی شجاعت کا اعتراف بھارتی فوج نے بھی کیا۔ معرکہ کارگل میں دشمن پر اپنی دھاک بٹھانے اور ہیبت طاری کر دینے والے 29 سالہ فوجی جوان کو بہادی کے اعزاز میں نشان حیدر سے نوازا گیا۔

Saturday, July 03, 2021

سید ‏بلاول ‏شاہ ‏نورانی

لاہوت لامکاں ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ کے جنوب میں سارونہ کے علاقے میں واقع ہے۔ لاہوت لامکاں کا پہاڑ ایک بڑا حسین ترین آبشار معلوم ہوتا ہے۔ لاہوت لامکاں کا پہاڑ کراچی سے آنے والے روڈ سے مغرب میں اور سید بلاول شاہ نورانی اور محبت فقیر کے مزارات سے جنوب میں واقع ہے۔ لاہوت لامکاں کا خوبصورت ترین پہاڑ بہت بلندہے۔ یہ بہاڑ سطح سمندر سے اندازہ 4000 ہزار فٹ بلند ہے۔ لاہوت کا پہاڑ پیدل عبور ہی کیا جاتا ہے۔ لاہوت لا مکاں کا پہاڑ دو اطراف سے عبور کیا جا سکتا ہے۔ ایک راستہ سید بلاول شاہ نورانی کے مزار سے پہاڑیاں سر کرتے ہوئے لاہوت لامکاں کی طرف جاتا ہے جو کچھ زیادہ مشکل ہے۔ دوسرا راستہ محبت فقیر کے مزار تک پہچنے سے پہلے روڈ سے نکلتا ہے جہاں لاہوت لامکاں کا سائن بورڈ نصب ہے۔ یہاں روڈ کے قریب ایک چھوٹا سا ہوٹل اور مسجد ہے جہاں سے سفر شروع ہوتاہے۔ یہ راستہ بھی آسان نہیں مگر اکثر لاہوتی اسی راستے سے جاتے ہیں۔ لاہوت لامکان کی غار کی طرف یہ راستہ پہاڑیوں میں سے بل کھاتا ہوا اوپر غار کی طرف جاتا ہے۔ اس خطرناک راستے میں کہیں کہیں لوہے کی سیڑھیاں بھی لگی ہوئی ہیں۔ لاہوت لامکاں کی غار سے پہلے ایک ہوٹل ہے جہاں کچھ لمحے جانے والے بیٹھ کر چائے پیتے ہیں اور تھکن دور کرتے ہیں۔ راستے میں ایک دکان بھی ہے جہاں سے لوگ تبرک کے طور پر چیزیں لیتے ہیں۔ پھر لاہوت لامکاں کی زیارت گاہیں شروع ہوتی ہیں۔


لاہوت لامکاں کی جگہ

سجدہ گاہ کے بعد لاہوت لامکاں کی چٹان آتی ہے جہاں چھوٹی سی جگہ یا پلاٹ ہے۔ اوپر پہاڑ چھت کی طرح ہے۔ ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں۔ اوپر چھت نما پہاڑ میں نوکدار پتھر ایسے نظر آ رہے ہیں جیسے بھینس یا گائے کے تھن ہوں۔ ان میں سے پانی کی بوندیں ٹپکی رہتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ پہلے ان میں سے دودھ ٹپکتا تھا۔ لوگوں نے وہ دودھ بیچنا شروع کیا تو پھر وہ پانی ہو گیا۔ لوگ تبرک کے طور پر وہ ٹپکتی بوندیں جھپک کر ہاتھوں، بازؤوں اور منہ کو لگاتے ہیں۔ ایک عجیب سا سحر انگیز ماحول ہوتا ہے۔ علی علی کے نعروں سے لاہوت لامکاں کی پہاڑی گونج اٹھتی ہے۔ اس جگہ سے ایک لوہے کی سیڑھی ہے جو غار کے منہ تک جاتی ہے۔


لاہوت

لاہوت کے لغوی معنی یہ ہیں: ”وہ جگہ جو فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ (اولیاء کرام) والے لوگوں کا آستانہ ہو“ اسے لاہوت کہتے ہیں۔


روحانی لاہوت (ایک صوفی اصطلاح)

شیخ عبد الرحمنٰ چشتی کے بیان کے مطابق اس لاہوت کا روحانی لاہوت سے دور تک کوئی تعلق نہیں ہے سوائے اس کے کہ چند صوفیائے کرام نے اس مقام پر آکر سخت چلہ کشی اور مجاہدے کیے، جس کے بعد مقامی افراد نے ان چلہ گاہوں کا نام لاہوت لامکاں رکھ دیا۔


لاہوت کے راستے

لاہوت لامکاں تک جانے کے لیے دو راستے اہم ہیں پہلا راستہ لی مارکیٹ، کراچی سے ہے۔ اور دوسرا راستہ سیہون شریف سے پیدل محبت فقیر تک ہے۔(یعنی سندھ سے بلوچستان تک پیدل سفر)۔

پہلا راستہ
لی مارکیٹ سے محبت فقیر تک:
شاہ نورانی کے مزار تک جانے کے لیے منگھو پیر والے راستے سے نکل کر سید صاحب ڈیم والی سڑک کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ حب چوکی کے راستے سے نکل کر حب ڈیم والی سڑک کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

اس راستہ سے دو یا تین کلو میٹر آگے چل کر تمام راستہ کچا اور دشوار گزارش ہے۔ اور تمام راستہ پہاڑوں کے درمیان میں سے طے کرنا پڑتا ہے۔ محبت فقیر پر پہنچ کر اگلا تمام راستہ پیدل کرنا پڑتا ہے یا مخصوص امریکی گاڑیاں جس کو مقامی افراد ”کیکڑا“ کہتے ہیں۔ کیکڑے پر کرایہ دے کر سفر کرنا پڑتا ہے۔ اور شاہ نورانی درگاہ پہنچنے کے بعد درگاہ شاہ نورانی سے پیدل سفر کیا جاتا ہے

دوسرا راستہ
سیہون سے محبت فقیر تک:
سیہون میں جب شہباز قلندر کے عرس کا اختتام ہوتا ہے تو زائرین قافلے کی شکل میں ”لال باغ“ میں آکر جمع ہوتے ہیں۔ اور ہر قافلہ وقفہ وقفہ سے لاہوت کے لیے روانگی اختیار کرتا ہے۔ سیہون سے چل کر پہلی منزل ”جھانگارا باجارا“ آتی ہے دوسری منزل ”صالح شاہ“، تیسری منزل ”باغ پنج تن پاک“، چوتھی منزل ”چھنگھن“۔ اس کے علاوہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کچھ دیر آرام کرنے کی منزلیں ہیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں؛

سید آری پیر ۔
علی کا کنواں: جہاں انسان کے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے۔ لیکن جب زائرین ”مولا علی“ کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو پانی تیزی سے اوپر آ جاتا ہے تمام زائرین حاجت کے مطابق پانی پی لیتے ہیں۔ بعد میں پھر پانی اپنی نچلی سطح پر واپس چلا جاتا ہے۔
آہوت جبل
بہلول دیوانے کا آستانہ: اس کے مطابق کہا جاتا ہے کے ایک شخص حضرت علیؓ کے شیدائی تھے وہ کچھ اشیاء بیچ کر پیسہ جمع کر کے لوگوں کو کہتے تھے علی کا نعرہ بلند کرو جب لوگ ایسا کرتے تو وہ اپنی کمائی ہوئی رقم ان لوگوں کو تقسیم کر دیتے تھے اس لیے ان کو بہلول دیوانہ کہا جاتا ہے۔
مسجد لطیف
بولالک
لطیف جی کھوئی۔ اس کے بعد زائرین محبت فقیر پر حاضری دیتے ہیں۔ اور شاہ نورانی درگاہ پہنچ کر قافلہ کی شکل میں لاہوت کا سفر شروع کرتے ہیں


نورانی سے لاہوت کا راستہ

نورانی سے لاہوت لامکاں جانے کے لیے تمام پہاڑی سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ جن میں مندرجہ ذیل پہاڑیاں شامل ہیں۔

چار پائی پہاڑ
کشتی نما پہاڑ
پیالہ یا لوٹا نما پہاڑ
دال پہاڑ
مزید تین اور پہاڑیں ہیں جن کا کوئی نام نہیں۔ یہ سفر طے کرکے لاہوت کی منزل آجاتی ہے۔


غارِ لاہوت کا اندرونی نظارا

لاہوت لامکاں سے زائرین آتے ہوئے
غار کے منہ سے اندر کی جانب رسے کی مدد سے اترنا پڑتا ہے۔ غار میں اترتے وقت سب سے پہلا پاؤں ”پتھر کے دیو قامت شیر“ پر پڑتا ہے مقامی روایت کہ مطابق، یہ شیر حضرت علیؓ کی سواری ہوا کرتا جب آپؓ یہاں سے ہجرت کر گئے تو یہ پتھر کا بن گیا۔ (حضرت علی جب خلیفہ تھے تو وہ اپنے عہد میں سفر طے کرتے رہتے تھے جس کا ثبوت مختلف روایات سے ملتا ہے) پھر اس کے بعد غار کے اندر داخل ہونے پر کچھ دکھائی نہیں دیتا تو زائرین فرش پر جمع ہوئے پانی سے منہ کو دھوتے ہیں جس کے بعد ان کو سب کچھ دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس غار نما ہال یا ہال نما غار کی چھت چودہ فٹ اونچی ہے۔ غار میں ہوا اور روشنی کے لیے ایک ہی سوراخ ہے جس سے زائرین داخل ہوتے ہیں اور باہر جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ مقامی راویات کے مطابق، حضرت علی کا تخت، پنجتن پاک کی چلہ گاہ۔ حضرت علی کی پتھر کی شکل میں اونٹنی بھی موجود ہے جس کو لعل شہباز قلندر نے 21 دن کے استخارہ کرنے کے بعد ثابت کیا کہ یہ حضرت علی کی اونٹنی ہے جو ادھر آئی اور پتھر کی بن گئی۔](دوسری روایات کے مطابق، حضرت علی کی ایک اونٹنی تھی جو اپ کی وفات کے بعد کہیں غائب ہو گئی تھی اس کا کسی کو علم نہیں کہ وہ اونٹنی کہاں گئی)۔


علی بن ابی طالب سے منسوب اونٹنی
اس کے علاوہ مقامی روایات کے مطابق خاتون جنت کی چکی اور بی بی فاطمہ سے منسوب صابن پتھر کی شکل میں موجود ہے جس صابن نما پتھر سے آج بھی خوشبو آتی ہے۔ اور حضرت علی کی اونٹنی کے اردگرد چھوٹے چھوٹے پیروں کے نشانات بھی موجود ہیں۔ یہاں کہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ امام حسن و حسین کے پیر ہیں۔ جو اپنے والد ماجد کے ساتھ اونٹنی پر گھوما کرتے تھے۔ (حضرت علی سفر طے کرتے رہتے تھے جس کا ثبوت مختلف روایات سے ملتا ہے)۔ اس کے ساتھ ہی پنجتن پاک کی چلہ گاہ موجود ہے۔ آپ کی چلہ گاہ کے قریب ایک سرنگ بنی ہوئی جس میں ایک راستہ بنا ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ راستے سات دن کے سفر کرنے کے بعد مدینہ منورہ میں نکلتا ہے۔
اس کے متعلق صاحب تحفۃ الکرام کے مصنف نے صفحہ نمبر 781 پر کچھ یوں لکھا ہے؛

” اس کمرے کے اندر ایک غار ہے جس میں راستہ بنا ہوا ہے اور اس کی کوئی انتہا یا حد نہیں۔ کہتے ہیں کہ اس راہ سے ڈھائی دن کے عرصے میں حجاز کی سرزمین پر پہنچا جا سکتا ہے کچھ لوگ سات دن کہتے ہیں۔ قدیم زمانے میں درویشوں نے اس راستے سے سیر کی۔
اس کمرے میں ایک طشت کا سا پتھر بھی رکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ قدیمی زمانے میں اہل اللہ میں سے چالیس فقرا کا ایک دانہ اس میں پس کر سب کے سب شکم سیر ہوئے تھے

لاہوت کے متعلق لوگ ورثہ اسلام آباد سے۔ جناب عبد الغفور دوش صاحب کی فیلڈ رپورٹ ”لاہوت لامکاں کے عنوان“ شائع کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ؛

” لاہوت دراصل ایک گلاس کی شکل کا نہایت تنگ اور گہرا گڑھا ہے۔ اس کے نیچے اترنا گویا ایک آتش فشانی دہانے میں اترنے کے مترادف ہے۔ دونوں ہاتوں کو پتھر پر لٹکا کر ایک سال کے بچے کی طرح گھسیٹ گھسیٹ کر اور پھسل پھسل کر نیچے اترنا پڑتا ہے۔ بعض جگہوں پر لوہے کی سیڑھیاں لگی ہوئی ہیں لیکن وہ بھی انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ ان سیڑھیوں کے ڈنڈے ریل کی پٹری کے بنے ہوئے ہیں۔ زائرین کے لیے اپنے ہمراہ معمولی سامان لے کر نیچے اترنا مشکل ہے، میں اپنے ٹیپ ریکارڈ کی ڈوری کو دانتوں میں پکڑ کر نیچے اترا (مصنف)۔ جب میں اندر اترا تو ایک عجیب سی روحانیت کا منظر تھا۔ میں نے جیسے ہی منہ پانی سے دھویا مجھے لاہوت کی تمام چیزیں دکھائی دیں۔ ان پتھر کے مجسموں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے اوپر والی ذات نے ان ما فوق الفطرت اشیاء کو تھوڑی دیر کے لیے روکے رکھا ہے مگر وہ پتھر کے ہی تھے۔


جناب عبد الغفور دوش صاحب نے فیلڈ رپورٹ سے مزید لکھا ہے کہ؛


آدم و اماں حوا کی مسجد
” ملنگ کی گدی کے بالکل سامنے جس پتھر پر جھرنا گر رہا ہے وہ پتھر ایک بہت بڑے سانپ کی شکل کا ہے جس نے اپنے پھن کو اوپر کو اٹھایا ہوا ہے۔ اس کے پیچھے ایک چھوٹا سا سانپ ہے جسے وہ اس بڑے سانپ کی مادہ بتاتے ہیں۔ مقامی ملنگوں کا کہنا ہے کہ 'اس جگہ امام حسین اور حسن کھیل رہے تھے ان سانپوں نے انہیں ڈسنے کی کوشش کی لہٰذا یہ پتھر کے ہو گئے'۔ پتھر کے سانپوں اور ملنگ بابا کی گدی کے درمیان میں عین ملنگ کے سامنے ایک چھوٹی سی مسجد بنی ہے جس کے اوپر ”مسجد آدم اور حوا“ کی تختی لگی ہوئی ہے، کہتے ہیں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں آدم و حوا کو دنیا میں سب سے پہلے اتارا گیا۔ اس مسجد میں، میں نے اکثر زائرین کو نفل ادا کرتے دیکھا۔
سجدہ گاہ لاہوت لامکاں کی غار کے طرف جانے والے راستے میں ہے۔ کہتے ہیں کہ لاہوت لامکاں کائنات میں پہلی جگہ ہے جو زمین پر رونما ہوئی۔ اس کا ثبوت یہاں سجدہ گاہ کی جگہ سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام جب زمین پر یہاں اتارے گئے تھے تو انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں یہاں پہلا سجدہ کیا تھا۔ وہ جگہ سجدہ گاہ کہلاتی ہے۔ یہاں تعمیر کی گئی چھوٹی سی مسجد یا سجدہ گاہ آدم علیہ السلام سے منسوب ہے۔


لاہوت کے مقامی لوگ

لاہوت، شاہ نورانی اور اس کے آس پاس مقامی آبادی براہوئیوں کی ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر خانہ بدوش ہیں۔ بھیڑ، بکریاں چرانا اور اونٹوں پر باربرداری کرنا ان کا آبائی پیشہ ہے۔ یہ لوگ انتہائی محنت کش، طاقتور، بہادر اور ایماندار ہیں۔ انتہائی غریب ہیں۔ یہ لوگ چھوٹے موٹے کاروبار اور مزدوری کے علاوہ اور کسی چیز میں دلچسپی نہیں لیتے مقامی لوگوں کے اس رویہ کی وجہ سے انہیں بیرونِ بلوچستان سے آئے ہوئے لوگ ”مکے کے بدو“ کہتے ہیں۔ کئی مقامی لوگ دیہات سے لائے ہوئے بکری کے بچے، دودھ، خالص شہد، گھی اور کھجور کے پتوں کی بنی چٹائیاں، ببول کی گوند، پتھر کی گونڈیاں اور سپاریوں کی مدد سے تیار کردہ گلے کے ہار وغیرہ لاہوت لامکاں اور شاہ نورانی درگاہ پر فروخت کرتے ہیں۔


لاہوت کے پہاڑوں میں پیداوار ترميم

لاہوت کے پہاڑوں پر پکھراج اور زہر مہرہ کافی مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ ان پہاڑوں میں آنکھ کی بیماری کے لیے ”سرمے“ میں کام آنے والی بوٹی جسے ”ممیری“ کہتے ہیں عام پائی جاتی ہے۔ بروہی لوگ اس نایاب بُوٹی کی چھوٹی چھوٹی گھچیاں لا کر زائرین کے ہاتھ نہایت ارزاں قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ نایاب قسم کی جڑی بوٹیاں درگاہ شاہ نورانی اور لاہوت کے راستوں میں دستیاب ہیں اس کے علاوہ ”سلاجیت“ بھی کافی مقدار میں لاہوت کی پہاڑیوں میں پایا جاتاہے۔


لاہوت لامکاں کے قِصّے

قِصّہ اول :
ایک دفعہ کچھ زائرین شاہ نورانی سے لاہوت کے لیے راونہ ہوئے اور لاہوت کر کے شاہ نورانی واپس جانے کے لیے نکلنے لگے تو ان میں سے ایک شخص نے ضد کی کہ وہ ایک رات یہاں ضرور گزارے گا۔ (شام پانچ بجے کے بعد لاہوت میں انسانوں کے جانے پر پابندی عائد ہے کیونکہ پانچ بجے کے بعد جنات کا لاہوت کرنے کا وقت ہوتا ہے اور دوسرے روز صبح اٹھ کر شاہ نورانی واپس جائےگا اس کے دوستوں نے اسے بہت منع کیا مگر وہ نہ مانا۔ اگلے روز جب اس کے دوست وہاں اسے واپس لانے کے لیے گئے تو دیکھا رجب علی بہکی بہکی اور عجیب سی حرکات کر رہا ہے۔ اس کو صرف یہی کہتے سنا گیا ”وہ یہاں تھے کدھر گئے؟“۔ رجب علی کو زبردستی بیٹھا کر اس کے دوستوں نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ رات کو جب 'رجب' کی آنکھ کھلی تو دیکھتا ہے کہ

” ایک شخص اونٹ پر سوار ہے جو عربی لباس زیب تن کئے ہوئے ہے اور ایک دوسرا شخص بھی عربی لباس میں تھا۔ اونٹی کی رسی پکڑ کر آگے آگے جارہا ہے۔ یہ دیکھ کر رجب علی اٹھا اور ان کا پیچھا کیا۔ بظاہر تو اونٹ کی رفتار بہت کم تھی لیکن فاصلہ ایک دوسرے کا کم نہیں ہو رہا تھا ۔جب کافی آگے نکل گیا تو ایک دہشت ناک آواز پہاڑیوں کے درمیان میں گونچتی ہوئی اس کو سنائی دی؛
”ہمارا پیچھا مت کرو!“
تب بھی رجب علی ان کا پیچھا کرتا رہا۔ آخر ایک جگہ ایسی آئی کہ دو پہاڑیوں کے درمیان میں اتنا بڑا فاصلہ آ گیا جسے اونٹ نے چھلانگ لگا کر پار کر لیا۔ اور رجب علی دیکھتا ہی رہ گیا اور چھلانگ نہ لگا پایا

۔ اپنے دوستوں کو یہ بات بتانے کے بعد رجب علی بے ہوش ہو گیا۔ اور دوبارہ ہوش میں آیا تو وہی بہکی حرکتے کرنے لگا اس کے بعد رجب علی اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا۔ مقامی لوگوں نے قصہ سنا تو فوراً کہنے لگے کے وہ اونٹنی علی کی تھی جو شام پانچ بجے کے بعد زندہ ہوتی ہے اور وہاں دو عربی افراد اور کوئی نہیں بلکہ علیؓ اور حسینؓ تھے۔ (واللہ اعلم بالصواب)

قِصّہ دوم :
ایک مرتبہ کسی زائر نے یہ سوچا کہ لاہوت کرنے کے لیے ان دشوار راستوں سے گزرنا اور ان پہاڑوں کے ٹیڑے میڑھے اور تنگ راستوں سے گزرنا تو بہت ہی مشکل ہے تو پیدل چلنے سے بہتر ہے کہ کوئی سواری مثلاً اونٹ کرائے پر لے کر لاہوت کیا جائے۔ اونٹ کرائے پر لے کر وہ شخص لاہوت روانہ ہو گیا اور پہلا پہاڑ پار کر لیا۔ دوسرا پار کرنے ہی والا تھا کہ اس پہاڑ کے موڑ پر ایک درویش دیکھا۔ جس نے اس شخص کو آگے جانے سے روکا اور کہا کہ
”سواری چھوڑ دو اور پیدل جاؤ ایسے تمہارا لاہوت قبول نہیں ہوگا!“
لیکن اس شخص نے بہانہ کیا کہ میری ٹانگ میں تکلیف ہے۔ اس وجہ سے پیدل نہیں چل سکتا۔ درویش نے اسے کہا
”اگر تم نے اسی طرح جبل پار کرنے کی کوشش کی تو پھر ہونے والے نقصان کے زمہ دار تم خود ہوگے“
وہ پھر بھی نہ مانا اب جیسے ہی پہاڑ پار کرنے لگا تو اونٹ کے پیر میں کیل گھس گئی اور اونٹ کے ساتھ وہ اچانک سے زمین پر آگر اور ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ پھر اس شخص کی سمجھ میں آیا یہ درویش نہیں بلکہ کوئی اللہ جل جلالہ کی ولی شخصیت تھی۔

قِصّہ سوم :
فقیر قطب علی شاہ ایک ولی بزرگ گزرے ہیں۔ ان کو بچپن ہی سے لاہوت کی پہاڑوں کا بڑا شوق تھا۔ فقیر قطب 17 برس کی عمر سے 40 کی عمر تک لاہوت جاتے رہے۔ چالیس چالیس دنوں تک وہاں وقت گزارتے تھے۔ ایک دن والد صاحب نے پوچھا کیوں بیٹا کیا بات ہے کہ اتنا عرصہ وہاں جاکر کیوں رہتے ہو۔ تو فقیر قطب نے جواب دیا۔ ابا جان جو بات ان جبال میں ہے وہ کہیں نہیں ہے سارا سچ یہاں ہے میرا دل اب کہیں نہیں لگتا ہے۔ لاہوت میں فقیر قطب کا کھانا قدرتی تھا کیوں کہ ان پہاڑوں میں ایک قسم کا پھل پیدا ہوتا ہے جسے ”منگھو“ پھل کہا جاتا ہے وہ کھا کر فقیر قطب وقت گزارتے تھے۔


منگھو پھل پہاڑوں میں پیدا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ سخی سلطان کا نام منگھو پھل کی وجہ سے منگھو پیر پڑ گیا۔


علی بن ابی طالب کی بلوچستان آمد

علی بن ابی طالب کی بلوچستان آمد سے متعلق جو باتیں روایت میں آچکی ہیں۔ ان کا تاریخی طور پر کوئی ثبوت نہیں ملتا سوائے اس کے کہ بلوچستان میں آپ کی آمد کے متعلق بلوچستان۔ ماضی۔ حال۔ مستقبل کے مصنف اس عنوان سے ”مسلمانوں کی ان علاقوں میں آمد“ میں لکھتے ہیں کہ؛

” تقریباً چھٹی صدی عیسوی میں پہلی دفعہ مسلمانوں کا بلوچستان اور سندھ سے تعلق ہوا “

مشہور تاریخ دان بلاذری کے بیان کے مطابق

” حضرت عثمان نے عراق کے گورنر عبداللہ بن عامر کو ہدایت کی کہ بلوچستان اور سندھ کی طرف بحریہ کا ایک مشن روانہ کیا جائے تاکہ وہاں کے حالات سے واقفیت ہوسکے۔ چنانچہ حضرت عثمان کو خبر ملی کہ اس علاقے میں پانی بالکل ناپید ہے۔ پھل ہیں مگر کھانے کے قابل نہیں۔ چور و ڈاکو بلا روک ٹوک ظلم ڈھاتے ہیں۔ جیسے ظالم ڈاکو ہیں ایسا ہی ظالم علاقہ۔ تھوڑی فوج کے ذریعے مقابلے میں کامیابی ناممکن ہے۔ بڑا لشکر بغیر رسہ نہیں ٹھہر سکتا۔ حضرت عثمان کو تعجب ہوا اور انہوں نے اس علاقے پر حملے کا ارادہ ترک کر دیا۔
حضرت علی کے خلافت کے دور میں حارث بن مرو العبدی نے بلوچستان کی سرحد پر چڑھائی کی۔ بیش بہا مال غنیمت ہاتھ آیا۔ پھر معاویہ کے دور میں بھی باقاعدہ اس علاقے پر لشکر کشی ہوئی (یہ بات محمد بن قاسم سے پہلے کی ہے)۔ “
اس سے یہ ثابت تو ہو گیا کہ حضرت علی کا زیادہ یا کم بلوچستان سے اور لاہوت لامکاں سے تعلق رہا ہے

Featured Post

ایران کا صبح سویرے اسرائیل پر ایک اور بڑا حملہ، بلیسٹک، ہائپر سونک میزائلوں اور ڈرونز کا استعمال، 8 افراد زخمی، 200 سے زائد زخمی

ایران نے اسرائیلی لڑاکا طیاروں کو تیل فراہم کرنے والی تنصیبات کو نشانہ بنایا، حملے سے حیفہ میں ریفائنریز میں آگ لگ گئی وعدہ صادق سوم کے تحت...