ناظم جوکھیو کے ورثا کی جانب سے سیشن کورٹ ملیر میں حلف نامہ جمع کروادیا گیا، حلف نامہ ناظم جوکھیو کی والدہ ،اہلیہ اور بچوں کی جانب سے جمع کرایا گیا، حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ ملزمان کے ساتھ صلح ہوچکی ہے کیس ختم کرنے پر کوئی اعتراض نہیں، عدالت نے قانونی ورثا سے متعلق اخبار میں اشتہار شائع کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے نادرا سے بھی آئندہ سماعت تک رپورٹ طلب کرلی، سیشن کورٹ ملیر نے کیس کی سماعت 15 اکتوبر تک ملتوی کردی، ناظم جوکھیو قتل کیس میں پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی جام اویس سمیت 6 ملزمان گرفتار ہیں اور ملزمان پر آج فرد جرم عائد ہونی تھی، یاد رہے کہ 27 سالہ ناظم جوکھیو کو 3 نومبر 2021 کو کراچی کے ضلع ملیر میں جام اویس کے فارم ہاؤس میں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا تھا،
Search This Blog
Saturday, September 24, 2022
Wednesday, September 21, 2022
عقاب جیسی نظر اور چیتے جیسی پھرتی رکھنے والے پاک فوج کے ایسے کمانڈوز جنہوں نے قوم کا سر فخر سے بلند کردیا
عقاب جیسی نظر اور چیتے جیسی پھرتی رکھنے والے پاک فوج کے ایسے کمانڈوز جنہوں نے قوم کا سر فخر سے بلند کردیا | |||||||||||||||||||||||||
|
حضرت سید عبداللہ شاہ غازیؒ کی زندگی اور شہادت سے جڑے حیران کن واقعات
حضرت سید عبداللہ شاہ غازی ؒ کو والی کراچی بھی کہا جاتا ہے۔ ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ ان کی کرامات کی وجہ سے کراچی سمندری طوفانوں سے بچا ہوا ہے۔ صوفیاء کرام، اولیاء اور بزرگان دین اللہ کی طرف سے محبت کے زریعے انبیاء کرام کے کام کو تکمیل دیتے ہیں اور یہ مختلف علاقوں میں اللہ کی طرف سے معمور کئے جاتے ہیں۔ حضرت سید عبداللہ شاہ غازی کی تاریخ انتہائی دلچسپ ہے آئیے جانتے ہیں۔
آپ ؒ نے سندھ میں جب اپنے قدم رکھے تو ایک پہاڑ جس پر آپ کا مزار ہے وہ سمندر کے پانی میں گھرا ہوا تھا۔ پیدل چل کر پہاڑ پر جانا مشکل تھا وہ آپ کے چلے کی جگہ تھی۔ کہا جاتا ہے اور عام مشہور بھی ہے کہ آپؒ نے سمندر کو حکم دیا پیچھے ہٹ جاؤ سمندر پیچھے ہٹ گیا۔ یوں سمندر نے زمین چھوڑ دی یعنی سمندر پر بھی ان کی حکمرانی تھی۔ کراچی والوں کا خیال ہے کہ ان ہی کی دعاؤں سے کراچی سمندری آفات سے بچا ہوا ہے یہ شاید اس شہر کی خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں یہاں بسایا۔
حضرت سید عبداللہ شاہ غازیؒ کی ولادت با سعادت اٹھانویں ہجری مدینہ طیبہ میں ہوئی۔ آپؒ نسبتاً سید سادات ہیں آپ کے پر دادا حضرت سید حسن مثنیٰ بن امام حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ اس طرح آپ حسنی حسینی کہے جاتے ہیں۔ آپؒ کا لقب "الاشتر "تھا یعنی اونٹ چلانے کا ماہر۔ آپؒ کا شجرہ مزار پر نسب ہے۔ آپ ؒ کی زندگی جہاد فی سبیل اللہ میں گزری۔ مجاہد ہونے کے سبب آپ کو غازی کا لقب ملا۔ آپؒ نے اپنی ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد اور اس وقت کے مشہور محدث حضرت محمود زکیاء ؒسے لی۔
آپ ؒ 138 ہجری میں سندھ تشریف لائے۔ سندھ میں بے شمار صوفیاء کرام دعوت تبلیغ کے لئے آئے۔ آپ خلیفہ منصور عباسی کےعہد حکومت میں سندھ آئے۔ آپ کے وقت عباسیوں اور علویوں کے مابین خلافت کی کشمکش جاری تھی۔ اس وقت آپ گھوڑوں کے تاجر کے طور پر سندھ میں داخل ہوئے تھے، خلافت کی وجہ سے سادات کو نشانہ بنایا جا رہا تھا اس لئے آپؒ نے دین کی تبلیغ کے لئے یہ راستہ اپنایا تاکہ حکمرانوں کی مخالفت سے بچے رہیں اور دین کا کام بھی جاری رکھیں۔ لوگ جوق در جوق آپ کی دعوت تبلیغ میں داخل ہونے لگے۔
اولیاء اور صوفیا کرام کا پیغام تو محبت ہوتا ہے انھیں اقتدار سے کیا لینا دینا۔ اس وقت کے سندھ کے گورنرعمر بن حفس کو ان کے خلاف بھڑکانے کی بہت کوشش کی گئی یہاں تک کہ جب بغداد میں آپ ؒ کے والد عباسی حکومت کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئے تو وہاں سے گورنر سندھ کو آپؒ کو جلد ازجلد گرفتار کر کے خلیفہ منصور کے دربار میں حاضر کرنے کا حکم جاری کیا گیا لیکن گورنر سندھ جو خود آپؒ کے اسیر تھے انھوں نے آپؒ کو سندھ کی ساحلی پٹی پر واقع ریاست بھیجنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہاں کا راجہ اسلامی حکومت کا اطاعت گزار تھا تاکہ آپؒ کی باحفاظت اپنا کام جاری رکھیں۔
راجا نے آپؒ کی انتہائی تعظیم کی اور اس طرح تبلیغ جاری رہی۔ گورنر حفس کو اس حرکت کی بناء پر معزول کر دیا گیا اور نئے گورنر حشام بن عمر کو نیا گورنر بنایا گیا لیکن وہ بھی سادات کی تعظیم کرنے والا تھا۔ اسی دوران سندھ کے ایک علاقے میں حکومت کے خلاف بغاوت ہو گئی۔ گورنر نے اس بغاوت سے نمٹنے کے لئے اپنے بھائی سفیر بن عمر کو بھیجا۔ ساحلی علاقے میں حکومتی لشکر نے آپؒ کے لشکر کو باغیوں کا لشکر سمجھ کر حملہ کر دیا آپؒ جنگ نہیں چاہتے تھے لیکن اسی لڑائی میں آپؒ کو شہید کر دیا گیا۔اس حوالے سے جو ایک روایت عام ہے وہ یہ کہ شہادت کے بعد آپؒ کے مرید آپؒ کا جسد خاکی لے کر اسی علاقے میں روپوش ہو گئے یہاں پینے کا پانی میسر نہیں تھا ایک دن آپؒ اپنے ایک مرید کے خواب میں آئے اور چشمے کی بشارت دی یہ وہ ہی چشمہ ہے جو آج بھی مزار کے نیچے جاری و ساری ہے، سمندر کے دامن میں میٹھے پانی کا چشمہ ایک معجزہ ہی ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے چنے ہوئے بزرگوں کو نوازتا ہے۔ آپؒ کی شہادت ایک سو اکاون ہجری میں ہوئی۔ آج بھی آپؒ کے عقیدت مندوں کا آپؒ کے مزار پر تانتا بندھا ہوا ہوتا ہے۔ یہ مزار کراچی کے لینڈ مارک کی حیثیت رکھتا ہے۔
Monday, September 19, 2022
سندھ میں آٹا 200 روپے فی کلو ہونے کا اندیشہ، تاجروں نے خبردار کردیا
سندھ حکومت کی جانب سے فی کلو گندم کی سپورٹ پرائس میں اچانک 45 روپے اضافے کے باعث آٹے کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہو گیا ہے، حکومت سندھ کی جانب سے گندم کی سپورٹ پرائس میں یکدم 45 روپے فی کلو اضافہ کردیا گیا، جس کے بعد صوبے میں آٹے کی قیمت میں بھی ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے، اس حوالے سے چیئرمین ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن عبدالروف ابراہیم کا کہنا تھا کہ قبل از وقت سپورٹ پرائس مقرر کرکے مڈل مین کو فائدہ دیا گیا ہے، رؤف ابراہیم کے مطابق گندم کی سپورٹ پرائس بڑھنے سے اندرون سندھ گندم کی ذخیرہ اندوزی ہوئی، حکومت سے درخواست ہے کہ آٹے کی قیمت کم کرنے کیلئے 24 گھنٹے میں گندم کا کوٹہ ریلیز کیا جائے، چیئرمین ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن نے کہا عندیہ دیا کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو آٹا 200 روپے کلو ہوسکتا ہے
Sunday, September 18, 2022
سیلاب کے بعد بیماریوں اور اموات کی صورت میں دوسری آفت کا خطرہ
ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ سیلاب کے بعد پاکستان کو بیماریوں اور اموات کی صورت میں دوسری آفت کا خطرہ ہے۔سربراہ عالمی ادارہ صحت ٹیڈروس نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لاکھوں افراد کی زندگیاں اس وقت خطرے میں ہیں۔سیلاب کے بعد پاکستان کو بیماریوں اور اموات کی صورت میں دوسری آفت کا خطرہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے پاکستان میں صحت کے نظام کو شدید متاثر کیا ہے۔ صحت کے مراکز سیلاب میں ڈوب گئے ہیں ۔سربراہ عالمی ادرہ صحت نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں لوگ غیر محفوظ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ جس سے ہیضہ اور دیگر بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔یہ بھی پڑھیں:ان کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت پاکستان کیلئے امداد کی نئی اپیل جاری کرے گا۔ ٹیدروس نے دنیا بھر کےعطیات دینے والوں سے زندگیاں بچانے کے لیے دل کھول کر امداد کی گزارش کی ہے،
Thursday, June 16, 2022
آلودگی نے ہر انسان کی زندگی کے دو سال کم کر دیے: تحقیق
آلودگی نے ہر انسان کی زندگی کے دو سال کم کر دیے: تحقیق
بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی نے عالمی سطح پر ہر انسان کی اوسط عمر اور زندگی کی متوقع مدت دو سال کم کر دی ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ آلودگی کے باعث بننے والی یہ صورت حال ایڈز، سگریٹ نوشی یا دہشت گردی کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہے۔امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ( ای پی آئی سی) کی منگل کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا کی 97 فیصد آبادی ان علاقوں میں رہائش پذیر ہے جہاں آلودگی کی سطح مقررہ معیار سے کہیں زیادہ ہے۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے رہائشیوں نے سموگ کی وجہ سے اپنی زندگی کے پانچ سال کھو دیے ہیں جبکہ انڈیا کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہاں 2013 کے بعد سے فضائی آلودگی 44 فیصد بڑھی ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔تحقیق کے مطابق اگر چین عالمی ادارہ صحت کے معیار تک پہنچ جاتا ہے تو وہاں کی اوسط عمر دو اعشاریہ چھ سال بڑھ سکتی ہے۔چین وہ ملک ہے جہاں 2013 سے متوقع اوسط میں عمر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ اس نے آلودگی کے خلاف جنگی بنیادوں پر کام شروع کیا تھا اور پی ایم دو اعشاریہ پانچ کو 40 فیصد تک کم کر دیا تھا۔تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی کو ایک اہم عوامی مسئلے کے طور پر نہیں دیکھا گیا اور ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے جبکہ اس سے نمٹنے کے لیے ابھی تک فنڈز بھی ناکافی ہیں۔2013 کے بعد سے سب سے زیادہ آلودگی انڈیا میں بڑھی ہے ای پی آئی سی نے آب و ہوا کے معیار کے حوالے سے نئی فہرست جاری کی ہے جس کے لیے سیٹیلائٹ ڈیٹا کو استعمال کیا گیا ہے جس سے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچانے والے اجزا (پی ایم 2.5) کے آب و ہوا میں تناسب کا اندازہ لگا گیا ہے۔ای پی آئی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر عالمی سطح پر پی ایم 2.5 کی سطح پانچ مائیکروگرام فی کیوبک میٹر تک نیچے آ جائے جو کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے منظورشدہ ہے، تو اوسط متوقع عمر میں دو اعشاریہ دو سال کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ای پی آئی سی کے ڈائریکٹر برائے ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کریسٹا ہیسنکوف کا کہنا ہے کہ ’اب آلودگی کے حوالے سے معلومات میں بہتری آئی ہے اور یہ حکومتوں کے لیے ایسا معاملہ ہے جس کو فوری طور پر ترجیح دینی چاہیے۔‘آلودگی کے حوالے سے کوئی ملک ڈبلیو ایچ او کے معیار تک نہیں پہنچا (فوٹو: اے ایف پی)ای پی آئی سی کے اعداد و شمار پچھلی تحقیقات پر مبنی تھے جن میں بتایا گیا تھا کہ پی ایم ٹو پوائنٹ فائیو میں مسلسل 10 مائیکروگرام فی کیوبیک میٹر کا اضافہ اوسط عمر کو ایک سال کم کر دے گا۔2021 میں فضائی آلودگی کے حوالے سے ہونے والے ایک سروے کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس وقت تک کوئی بھی ملک عالمی ادارہ صحت کے سٹینڈز تک نہیں پہنچا جو کہ پانچ مائیکروگرام ہے۔
Friday, March 18, 2022
گورنر راج کیا ہے
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے سندھ میں گورنر راج کے بیان نے پھر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ملکی سیاسی تجزیئے جو پہلے تحریک عدم اعتماد اور اس کے بعد سندھ ہاؤس کے اردگرد گھوم رہے تھے اب گورنر راج کی بحث میں الجھ گئے ہیں۔ ایک طرف کچھ وفاقی وزرا سندھ میں گورنر راج لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب سندھ حکومت بھی اس طرح کے بیانات کے خلاف بھرپور جواب دے رہی ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی سندھ کے رہنما فردوس شمیم بھی صوبے میں گورنر راج کا مطالبہ کرچکے تھے۔ گورنر راج کے حق میں بولنے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 235 کے تحت سندھ میں ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ صوبے کی صورتِ حال تیزی سے خراب ہوری ہے، سندھ میں گورنر راج لگانے میں کوئی برائی نہیں۔ اس پر سندھ حکومت کا مؤقف ہے کہ گورنر راج کا شوشہ کئی بار چھوڑا گیا۔ آرٹیکل 235 میں نہیں بلکہ 234 میں ایمرجنسی کا ذکرہے۔گورنر راج میں کیا ہوتا ہے؟گورنر راج کے دوران صوبے میں تمام تراختیارات گورنر کے پاس آجاتے ہیں اور گورنر چونکہ وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے لہٰذا اس کے فیصلے وفاق کی مشاورت سے کئے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کا بڑا اختیار بھی گورنر کے پاس آجاتا ہے۔ اس کے علاوہ گورنر کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ وہ صوبے میں بگڑتی صورت حال پہ قابو پانے کیلئے فوج کو طلب کرلے جوکہ انتہائی بڑا اختیار ہے۔ عام حالات میں یہ اختیار صوبے کے وزیرِاعلیٰ اور صدرِمملکت کے پاس ہوتا ہے۔آئینِ پاکستان کے تحت کسی بھی صوبائی حکومت کی ناکامی پر قانون وفاق کی جانب سے صوبے میں گورنر راج لگایا جاسکتا ہے، جس کی مدت کم از کم چھ ماہ ہوتی ہے۔ ارکان، وزرا ، مشیران ،اسپیکر یہاں تک کہ صوبائی حکومت کا سب سے بڑا عہدہ یعنی وزیرِاعلیٰ بھی کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، جب کہ عام حالات کی بات کی جائے تو صوبائی گورنر کے پاس بہت زیادہ اختیارات نہیں ہوتے۔ ان کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ صوبے کی سلامتی کی دیکھ بھال کرے، صوبے کی روابط وفاق اور دیگر صوبوں سے مضبوط رکھے، جب کہ صوبے کے گورنر کی تقرری وزیرِاعظم کرتا ہے۔پاکستان میں ماضی میں کئی بار گورنر راج کی گونج سنائی دی گئی ہے۔ ایسے مواقع بھی آئے جب صوبائی گورنروں کو اضافی و مکمل اختیارات ملے اور اس صورت میں جب صوبائی اسمبلی تحلیل کر دی گئی ہو، تب انتظامی اختیارات براہ راست گورنر کے زیر نگیں آئے۔ سال 1958ء سے 1972ء تک اور سال 1977ء سے سال 1985ء کے مارشل لا کے دوران صوبوں میں گورنر راج نافذ رہا ۔ جب کہ 1999ء سے 2002ء کے گورنر راج کے دوران میں گورنروں کو اختیارات حاصل رہے۔سندھ میں کب کب گورنر راج لگاسندھ میں دو مرتبہ براہ راست گورنر راج نافذ رہا، اس دوران 1951ء سے 1953ء میں میاں امین الدین اور 1988ء میں رحیم الدین خان گورنر تھے۔ڈاکٹر عشرت العباد پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل مدت پوری کرنے والے گورنر ہیں جو 14 سال مسلسل گورنر کے عہدے پر برقرار رہے ۔ انہوں نے 3 حکومتیں دیکھیں، جب کہ عام طور پر گورنر کا دورِ حکومت 5 سال کا ہوتا ہے۔بلوچستان میں گورنر راجسال 2013 میں کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے موقع پر اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کرنا پڑا تھا۔ راجہ پرویز اشرف نے آئین کے آرٹیکل234 کے تحت کوئٹہ میں گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔آئین کے آرٹیکل234 کے تحت متعلقہ صوبہ کے گورنر کی رپورٹ پر اگر صدر مملکت کو یقین ہو جائے کہ صوبہ کی حکومت آئین اور قانون کے مطابق معاملات نہیں چلا سکتی تو وہ گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔صدر کے احکاماتگورنر راج نافذ کرنے کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہے کہ پارلیمینٹ کے دونوں ایوان اپنے الگ الگ اجلاسوں میں کسی صوبہ میں گورنر راج کے نفاذ کے لئے قراردادیں منظور کرلیں تو صدر مملکت ان پر عملدرآمد کرتے ہوئے گورنر راج کے نفاذ کا صدارتی فرمان جاری کرتے ہیں۔اٹھارویں ترمیماٹھارویں آئینی ترمیم سے قبل کسی صوبہ میں پارلیمینٹ کے ذریعے گورنر راج کے نفاذ کے لئے ضروری تھا کہ ایسی قرارداد قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی جائے تا ہم اب دونوں ایوانوں میں الگ الگ قرار دادیں منظور ہونا ضروری ہے۔
Thursday, October 07, 2021
بلوچستان زلزلہ: ہرنائی میں شدید تباہی، درجنوں مکانات منہدم اور 20 افراد ہلاک
پاکستان صوبہ بلوچستان کے علاقے ہرنائی میں بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے کنٹرول روم کے مطابق اس زلزلے کے نتیجے میں کم از کم 20 افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں اور متاثرہ علاقے میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ ہرنائی میں لیویز فورس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ہرنائی شہر اور دیگر علاقوں میں زلزلے سے متعدد گھر گر گئے ہیں جہاں سے لوگوں کو نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے مقامی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ زلزلے سے 100 سے زیادہ کچے مکانات منہدم ہوئے ہیں۔زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کی شدت ریکٹر سکیل پر پانچ اعشاریہ نو تھی جبکہ زمین میں اس کی گہرائی پندرہ کلومیٹر تھی۔ زلزلے کا مرکز بلوچستان کے علاقے ہرنائی کے قریب تھا۔ہرنائی اور بلوچستان کے متعدد علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب تین بج کر دو منٹ پر محسوس کیے گئے ہیں۔ہرنائی کوئٹہ شہر کے مشرق میں واقع ہے اور اس کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں بڑی تعداد میں کوئلے کی کانیں ہیں۔بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ زلزلے کی وجہ سے ہرنائی میں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے اور ضلع میں ایمرجنسی نافذ کر کے امدادی سرگرمیوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔وزیر داخلہ نے بتایا کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کو متحرک کرکے ہیوی مشینری ہرنائی کے لیے روانہ کردی گئی ہے۔ہرنائی میں مقامی صحافی یزدانی ترین نے بتایا ہے کہ زلزلے کے جھٹکے بہت شدید تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہرنائی شہر اور اس کے نواحی علاقوں میں گھروں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ہرنائی میں لیویز فورس کے ہیڈکوارٹر کے ایک اہلکار نے بتایا کہ زلزلے کے جھٹکے ہرنائی، شاہرگ اور دیگر علاقوں میں محسوس کیے گئے۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔یہ بھی پڑھیےجب 45 سیکنڈ میں پورا کوئٹہ شہر ملبے کا ڈھیر بن گیاہرنائی میں کچے گھر گر گئے، دیواروں میں دراڑیںان کا کہنا تھا کہ متعدد علاقوں میں زلزلے سے گھروں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ بعض مقامات پر گھروں کے گرنے سے جانی نقصان ہوا ہے۔ ہرنائی میں سول ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر منظور نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ زلزلے کی وجہ سے پانچ بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ درجنوں افراد زخمی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بعض شدید زخمیوں کو کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔زلزلے کی خوف کی وجہ سے لوگ گھروں سے باہر نکل گئے جبکہ شہر کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔اطلاعات کے مطابق زلزلے کے جھٹکے کوئٹہ کے علاوہ مستونگ، پشین، سبی اور متعدد دیگر علاقوں میں بھی محسوس کیے گئے تاہم ہرنائی کے علاوہ دیگر علاقوں سے تاحال جانی اور مالی نقصانات کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہیں۔بلوچستان کی پارلیمانی سیکریٹری برائے صحت ڈاکٹر ربابہ بلیدی نے کہا ہے ہرنائی اورکوئٹہ سمیت دیگرعلاقوں میں زلزلے کے ممکنہ نقصانات کے پیش نظر طبی ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ کوئٹہ، ہرنائی اور گرد و نواح میں نقصانات کی اطلاع کے پیش نظر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال سمیت تمام مراکز صحت میں ڈاکٹرز اور عملہ ہنگامی بنیادوں پر طلب کر لیا گیا ہے۔
Subscribe to:
Comments (Atom)
Featured Post
ایران کا صبح سویرے اسرائیل پر ایک اور بڑا حملہ، بلیسٹک، ہائپر سونک میزائلوں اور ڈرونز کا استعمال، 8 افراد زخمی، 200 سے زائد زخمی
ایران نے اسرائیلی لڑاکا طیاروں کو تیل فراہم کرنے والی تنصیبات کو نشانہ بنایا، حملے سے حیفہ میں ریفائنریز میں آگ لگ گئی وعدہ صادق سوم کے تحت...
-
حب (نامہ نگار) حبکو پاور پلانٹ گوٹھ قادر بخش گدور کے قریب فائرنگ کرکے پالاری برادری کے دو سگے بھائیوں کو قتل کردیا گیا، مقتول سگ...
-
محکمہ اطلاعات سندہ جامشورو، 4 مارچ 2021 ڈسٹرکٹ انفارميشن آفيس جامشورو کے سابق اسٹينوگرافر عبدالرزاق خاصخيلی کے اچانک انتقال پر ...
-
گھوٹکی میں ساوند اور سندرانی قبیلے کے درمیان چلنے والا تنازع دو سال بعد جرگے کے ذریعے حل ہوگیا، میڈیا رپورٹس کے مطابق تنازع کا ح...