سندھ جنوبی ایشیا کا ایک ایسا خطہ رہا ہے جس کا اہم ترین تعارف مذہبی رواداری ہے۔ اس کی مثالیں نہ صرف ہمیں مشترکہ ہندوستان کے زمانے میں ملتی ہیں بلکہ اب بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ سندھ میں صوفیا کرام کی درگاہیں ہر مذہب کے ماننے والے کا بانھیں کھولے استقبال کرتی نظر آتی ہیں۔ لال شہباز سے لے کر، بھٹ شاہ، سمن سرکار اور سادھو بیلو تک کئی ایسی درگاہیں ہیں جہاں لوگ عام دنوں میں تو جاتے ہی ہیں مگر عرس اور دیگر تقریبات میں دوسرے ممالک سے بھی لوگ یہاں آتے ہیں اور یہ شرکت بنا کسی مذہبی تفریق کے ہوتی ہے۔ لیکن سندھ میں ایک ایسی درگاہ آج بھی پوری دنیا کے انسانوں کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے، جس کی خاصیت سندھ میں دیگر درگاہوں سے کافی الگ تھلگ ہے۔یہ ’اڈیرو لال‘ کی درگاہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ حیدر آباد سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ٹنڈو آدم شہر سے قبل اڈیرو لال کا چھوٹا سا شہر آتا ہے، جہاں یہ درگاہ صدیوں سے قائم ہے۔ اڈیرو لال کو ’پانی کا پیر‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ مقامی روایات میں مشہور ہے کہ وہ ’پانی میں مچھلی پر بیٹھ کر سفر کیا کرتے تھے۔‘جس طرح ہر مقام سے جڑے چند قصے ہوتے ہیں اور تاریخ کے اوراق اُلٹ پلٹ کر حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے، اسی طرح جب اڈیرو لال کے حوالے سے جاننا چاہا تو ہمیں بھی بہت کچھ ملا۔ یہ ایسی درگاہ ہے جہاں مندر اور مسجد ساتھ ساتھ ہیں۔ مندر میں ہندو پوجا کرتے ہیں اور مسجد میں مسلمان نماز پڑھتے ہیں جبکہ ان دونوں عبادت گھروں کے بیچ اڈیرو لال کا مزار ہے۔ اڈیرو لال کے حوالے سے ہندو اور مسلمان اپنی اپنی روایات بیان کرتے ہیں لیکن آج تک کبھی اس بات پر کوئی فساد نہیں ہوا۔ اڈیرو لال کی پیدائش کے حوالے سے دو روایتیں معروف ہیں۔ 19ویں صدی کے تاریخ دان بھیرو مل مہرچند آڈوانی اپنی کتاب ’سندھی بولی جی تاریخ‘ میں لکھتے ہیں کہ اڈیرو لال 1007 میں سندھی کلینڈر کے مطابق نصرپور میں رتن رائی چند لوہانہ کے گھر میں ’چیٹی چنڈ’ کے ماہ میں پیدا ہوئے۔ ’چیٹی چنڈ‘ سندھی کیلینڈر کا مہینہ ہے، جسے سندھی کا نیا سال بھی کہا جاتا ہے۔ چیٹی چنڈ کی ابتدا مارچ اور اپریل کے درمیان ہوتی ہے اور اس ماہ میں سندھ کے لوگ اڈیرو لال کا میلہ اور ان کی سالگرہ بھی مناتے ہیں۔ آڈوانی اپنی ایک اور کتاب ’قدیم سندھ‘ جبکہ ’حیدرآباد جی تاریخ‘ کے مصنف حسین بادشاہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ٹنڈو آدم کسی زمانے میں نصرپور کا حصہ تھا، یہ مغل سلطنت کے دور میں انتظامی ضلع رہا جبکہ دریائے سندھ اس وقت مٹیاری سے گزرتا تھا۔ مٹیاری بھی نصرپور کا حصہ تھا۔ جب دریا نے اپنا رُخ تبدیل کیا تو ٹنڈو آدم کا جغرافیہ بھی تبدیل ہو گیا۔ لیکن اڈیرو لال سے ایک اور دلچسپ کہانی بھی جڑی ہے، جس کے مطابق ٹھٹھہ میں ایک ظالم حکمران مرکھ شاہ تھا، جو 10ویں صدی میں لوگوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر معمور تھا۔ مظالم سے تنگ آ کر ہندوؤں نے دریائے سندھ کے کنارے مذببی رسومات ادا کر کے عبادتیں شروع کر دیں اور خدا کو مدد کے لیے پکارا۔یہ بھی پڑھیےگاؤں جو پاکستان کا ’ویٹیکن سٹی‘ کہلاتا ہےبلھا! کی جاناں میں کون؟ ایک قبر مگر دعویدار تین مذاہبسات بہنوں کی درگاہ جہاں آج بھی خواتین منتیں لے کر آتی ہیں40 روز بعد ایک نوجون گھڑ سوار نمودار ہوا اور اس نے مرکھ شاہ سے کہا کہ وہ معصوم لوگوں پر مظالم ڈھانا بند کرے۔ اس کے 40 برس بعد، آڈوانی کے مطابق ایک لڑکارتن چند بھائی بند کے گھر نصرپو میں پیدا ہوا، جس کا نام ’اڈیرو لال‘ رکھا گیا۔ اڈیرو لال نام کے بارے میں ایک خیال یہ ہے کہ یہ سنسکرت کے لفظ اڈو سے اخذ کیا گیا ہے، جس کے معنی ’پانی‘ ہے، بعد میں یہ لفظ تبدیل ہو کر ’اڈر‘ بن گیا جبکہ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ یہ لفط سندھی لفظ ’اڈر‘ ہے، جس کے معنی ’اڑنا‘ ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور قصہ جو اڈیرو لال سے منسوب کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اڈیرو لال کی والدہ نے انھیں اپنا دودھ پلانے سے قبل دریائے سندھ کے پانی کے چند قطرے منھ میں ڈالے تھے۔ اسی وجہ سے اڈیرو لال پانی وارو پیر، ’دریا جو اوتار‘ یا ’پلے وارو پیر‘ کہلاتے ہیں لیکن وہ عام طور پر جھولے لال کے نام سے مشہور ہیں۔آج بھی اڈیرو لال کو ہندو اور مسلمان بنا کسی تفریق کے اپنا ’مرشد‘ مانتے ہیں۔ ہر سال اپریل کے مہینے میں انڈیا اور دیگر ممالک میں بسنے والے ان کے عقیدت مند میلے میں آتے ہیں، جس کا تمام تر انتظام درگاہ کے منتظم ہندو اور مسلمان مل کر کرتے ہیں۔یہاں ہندو مسلم ہر قسم کی رسومات میں شریک ہوتے ہیں اور اڈیرو لال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ وہ درگاہ پر ’بھجن‘ اور ’پنجڑا‘ گاتے ہیں۔ ان تمام تر رسومات کی شروعات دیا جلا کر کی جاتی ہے، اس کے بعد عقیدت مند ایک بڑا سا تھال سجاتے ہیں، جس میں مٹھایاں، پھل اور گلاب رکھے جاتے ہیں، اس کے بعد دریائے سندھ کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔ان میں سے ایک رسم کو ’بہرانو‘ کہا جاتا ہے۔ جس میں پیتل کی ایک جھوٹی سی تھالی میں دیا جلایا جاتا ہے اور آٹے کے پیڑے، مصری کی ڈلیاں، اگر بتیاں اور مٹھایاں رکھی جاتی ہیں۔ اس موقع پر ڈانڈیا ڈانس بھی کیا جاتا ہے، جو اس رسم کا اہم ترین حصہ ہے۔ سفید، پیلے اور نیلے رنگ میں سجی ہوئی اس درگاہ میں پیلو کا ایک درخت آج بھی موجود ہے جس کے بارے میں اڈیرو کے عقیدت مندوں کا کہنا ہے کہ آج سے کئی سال قبل اس درخت سے شکر نکلتی تھی لیکن اس کہانی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ درخت آج بھی موجود ہے مگر شکر کھانے کو نہیں ملتی۔اڈیرو لال کے مزار والا کمرہ شیشے سے بنا ہوا ہے اور چھت میں بادگیر لگے ہوئے ہیں، جن میں سے ٹھنڈی ہوا کا آسانی سے گزر ہوتا ہے اور دیواروں میں دیا جلانے کی کافی جگہیں ہیں جہاں دیے جلتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اڈیرو لال کے استعمال کی اشیا بھی موجود ہیں جن میں ایک لکڑی کا جوتا بھی ہے، جسے ’چاکھڑی‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں چندے کے لیے ایک ڈبہ ہے، جس میں مندر اور مسجد دونوں کے لیے چندہ جمع کیا جاتا ہے۔ درگاہ متولی عبداللہ شیخ نے بتایا کہ ’دہائیوں سے ہم ہندوؤں کے ساتھ سکون سے رہ رہے ہیں۔ یہ درگاہ ہمیں امن اور رواداری کا درس دیتی ہے اور ہم اس کے ماننے والے ہیں۔‘’جب بھی یہاں میلہ لگتا ہے تو ہندو برادری مسجد اور درگاہ کے لیے بھی چندہ دیتی ہے۔ اسی طرح یہ ہمارے فرائض میں شامل ہے کہ ہم مندر کی دیکھ بھال کریں۔ یہاں کسی قسم کی تفریق نہیں کیونکہ یہ نہ صرف اڈیرو لال درگاہ کی تعیلمات ہیں بلکہ سندھ میں بسنے والے سبھی لوگ مذہبی روادرای کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔‘محقق و ادیب نور احمد جنجھی کا کہنا ہے کہ ’یہ درگاہ درحقیقت ایک خانقاہ ہے۔ جس کی تعمیر کا نمونہ مغلیہ طرز تعمیر سے ملتا جلتا ہے۔ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ کس سنہ میں تعمیر ہوئی۔ یہ ہندو مسلمانوں کا مشترکہ ورثہ ہے جس میں مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اس کی مزید تعمیر کروائی تھی۔‘’لہٰذا یہ ایک قلعہ نما عمارت بھی دکھائی دیتی ہے۔ یہ تعمیر کردہ عمارت ایک خانقاہ سے ایک ایسی مذہبی رواداری والی عمارت میں تبدیل ہو چکی ہے جس میں دونوں عقیدوں کے ماننے والے موجود ہیں۔ درگاہ سے قبل یہاں ایک چھوٹی سی عمارت تھی جسے شاہ جہاں بادشاہ نے مزید بڑھایا۔‘نور احمد جنجھی مزید کہتے ہیں ’سندھ میں ایسی جو بھی درگاہیں یا خانقاہیں ہیں، انھیں اتنا بہتر کیا جائے کہ امن پیدا ہو سکے کیونکہ یہاں مختلف عقائد کے اثرات رہے ہیں۔ یہ درگاہ بقائے باہمی کا اہم ترین مظہر ہے۔‘اڈیرو لال کے مزار پر آئے ایک عقیدت مند نے کہا کہ ’ہمارے لیے اڈیرو لال کسی مسیحا سے کم نہیں۔ جب بھی میری زندگی میں کوئی مشکل گھڑی آتی ہے تو میں یہاں آتا ہوں۔‘’اس بار ہم اپنے بیٹوں کی شادی کے لیے آئے ہیں تاکہ اڈیرو لال سے رحمتیں ہم پر برستی رہیں۔ یہ ہماری ایک رسم ہے جو ہمارے آباؤ اجداد سے چلی آ رہی ہے اور اب ہماری نئی نسل بھی اسی نقش قدم پر چل رہی ہے۔‘اڈیرو لال کے شیو مندر میں لوگ شادی سے قبل دولہا کو یہاں زیارت اور ماتھا ٹیکنے کی رسم ادا کرنے کے لیے لاتے ہیں۔ جہاں کافی موج مستی کی جاتی ہے اور دولہا کے کپڑے پھاڑے جاتے ہیں۔ یہ رسم خوشی کے اظہار کے لیے کی جاتی ہے۔مزید پڑھیےیہ بھی پڑھیے مسلمان نہیں سکھ ہیں اس درگاہ کے خادم سات بہنوں کی درگاہ جہاں آج بھی خواتین منتیں لے کر آتی ہیں’کیا پتہ تھا کہ زندگی کی آخری دھمال ہو گی‘اڈیرو لال جہاں لوگوں کے لیے روحانی سکون کا ایک مسکن ہے تو دوسری جانب یہاں آنے والے یہ شکایت بهی کرتے ہیں کہ انھیں یہاں حاضری دینے کے لیے کئی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ انڈیا سے آنے والوں کو ویزے میں کئی دشواریاں حائل ہیں۔ ننکانہ صاحب میں جس طرح سکھوں کے لیے سہولیات پیدا کی گئی ہیں اسی طرح اڈیرو لال کی زیارت کرنے والے اپنے لیے بھی ایسا ہی مطالبہ کرتے ہیں تاکہ اڈیرو لال کی درگاہ جو کہ سندھ میں مذہبی ہم آہنگی کا سب سے بڑا مظہر بنا ہوا ہے، اسے دیکھنے کے لیے دنیا کے تمام لوگوں کے لیے کوئی روکاٹ باقی نہ رہے۔