گٹکا و ماوا فروشوں کو پولیس سرپرستی حاصل، اسپیشل برانچ کی رپورٹ
کراچی (اسٹاف رپورٹر) کراچی اور اندرون سندھ میں 6496 گْٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 452 غیر فعال ہیں جب کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں 543 گٹکا ماوا فروشوں کو پولیس سرپرستی حاصل ہے، شہر قائد سمیت صوبے بھر میں گٹکا، ماوے کا مکروہ دھندہ زور وشور سے جاری ہے آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی ٹاسک فورس کی کارروائیوں کے باوجود گٹکا ماوا مافیا کو لگام نہ ڈالی جا سکی، ایس ایچ اوز اور دیگر پولیس افسران واہلکاروں کی سرپرستی میں چلنے والے دھندے کے خلاف مصنوعی کارروائیاں کی جا رہی ہیں ٹاسک فورس کی کارروائیوں میں کمزور تھانیدار اور اہلکار تبدیل ہوئے ہیں اسپیشل برانچ کی رپورٹ نے پولیس کی سرپرستی میں چلنے والے دھندے سے متعلق حقائق سے پردہ اٹھا دیا، رپورٹ میں بتایا گیا کہ کراچی سمیت صوبے بھر میں 6496 گٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 452 غیر فعال ہیں کراچی سمیت سندھ بھر میں 543 گٹکا ماوا فروشوں کو پولیس سرپرستی حاصل ہے رپورٹ میں بتایا گیا کہ سب سے زیادہ 2782 گٹکا ماوا فروش حیدرآباد میں موجود ہیں جن میں سے 66 غیر فعال ہیں اور 259 گٹکا ماوا فروشوں کو پولیس سرپرستی حاصل ہے، رپورٹ کے مطابق کراچی میں 1326 گٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 341 غیر فعال ہیں اور 144 گٹکا ماوا فروشوں کو پولیس کی پْشت پناہی حاصل ہے، رپورٹ کے مطابق میرپور خاص میں 935 گْٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے ایک گٹکا ماوا فروش غیر فعال ہے اور 39 کو پولیس سرپرستی حاصل ہے، اسپیشل برانچ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ شہید بے نظیر آباد میں 964 گٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 2 گٹکا ماوا فروش غیر فعال ہیں جبکہ 84 گٹکا ماوا فروش کو پولیس کی پشت پناہی حاصل ہے، پورٹ میں بتایا گیا کہ سکھر میں 175 گٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 23 گٹکا ماوا فروش غیرفعال ہیں اور 29 کو پولیس سرپرستی حاصل ہے، رپورٹ کے مطابق لاڑکانہ 314 گٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 19 گٹکا ماوا فروش غیرفعال ہیں اور 2 گٹکا ماوا فروشوں کو پولیس کی پشت پناہی حاصل ہے، رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں 5749 گٹکا ماوا فروش مکروہ دھندہ کر رہے ہیں جبکہ 66 گٹکا ماوا فروش جیلوں میں بند ہیں 434 گٹکا ماوا فروش ضمانتوں پر ہیں، 73 گٹکا ماوا فروش مفرور ہیں، 136 گٹکا ماوا فروشوں نے اپنا کام بند کردیا جبکہ دیگر میں 38 گٹکا ماوا فروش شامل ہیں،
No comments:
Post a Comment