Search This Blog

Friday, May 19, 2023

گٹکا و ماوا فروشوں کو پولیس سرپرستی حاصل، اسپیشل برانچ کی رپورٹ

گٹکا و ماوا فروشوں کو پولیس سرپرستی حاصل، اسپیشل برانچ کی رپورٹ

کراچی (اسٹاف رپورٹر) کراچی اور اندرون سندھ میں 6496 گْٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 452 غیر فعال ہیں جب کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں 543 گٹکا ماوا فروشوں کو پولیس سرپرستی حاصل ہے، شہر قائد سمیت صوبے بھر میں گٹکا، ماوے کا مکروہ دھندہ زور وشور سے جاری ہے آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی ٹاسک فورس کی کارروائیوں کے باوجود گٹکا ماوا مافیا کو لگام نہ ڈالی جا سکی، ایس ایچ اوز اور دیگر پولیس افسران واہلکاروں کی سرپرستی میں چلنے والے دھندے کے خلاف مصنوعی کارروائیاں کی جا رہی ہیں ٹاسک فورس کی کارروائیوں میں کمزور تھانیدار اور اہلکار تبدیل ہوئے ہیں اسپیشل برانچ کی رپورٹ نے پولیس کی سرپرستی میں چلنے والے دھندے سے متعلق حقائق سے پردہ اٹھا دیا، رپورٹ میں بتایا گیا کہ کراچی سمیت صوبے بھر میں 6496 گٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 452 غیر فعال ہیں کراچی سمیت سندھ بھر میں 543 گٹکا ماوا فروشوں کو پولیس سرپرستی حاصل ہے رپورٹ میں بتایا گیا کہ سب سے زیادہ 2782 گٹکا ماوا فروش حیدرآباد میں موجود ہیں جن میں سے 66 غیر فعال ہیں اور 259 گٹکا ماوا فروشوں کو پولیس سرپرستی حاصل ہے، رپورٹ کے مطابق کراچی میں 1326 گٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 341 غیر فعال ہیں اور 144 گٹکا ماوا فروشوں کو پولیس کی پْشت پناہی حاصل ہے، رپورٹ کے مطابق میرپور خاص میں 935 گْٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے ایک گٹکا ماوا فروش غیر فعال ہے اور 39 کو پولیس سرپرستی حاصل ہے، اسپیشل برانچ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ شہید بے نظیر آباد میں 964 گٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 2 گٹکا ماوا فروش غیر فعال ہیں  جبکہ 84 گٹکا ماوا فروش کو پولیس کی پشت پناہی حاصل ہے، پورٹ میں بتایا گیا کہ سکھر میں 175 گٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 23 گٹکا ماوا فروش غیرفعال ہیں اور 29 کو پولیس سرپرستی حاصل ہے، رپورٹ کے مطابق لاڑکانہ 314 گٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 19 گٹکا ماوا فروش غیرفعال ہیں اور 2 گٹکا ماوا فروشوں کو پولیس کی پشت پناہی حاصل ہے، رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں 5749 گٹکا ماوا فروش مکروہ دھندہ کر رہے ہیں جبکہ 66 گٹکا ماوا فروش جیلوں میں بند ہیں 434 گٹکا ماوا فروش ضمانتوں پر ہیں، 73 گٹکا ماوا فروش مفرور ہیں، 136 گٹکا ماوا فروشوں نے اپنا کام بند کردیا  جبکہ دیگر میں 38 گٹکا ماوا فروش شامل ہیں،

Tuesday, April 04, 2023

بینظیر بھٹو اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کی آخری ملاقات کا احوال

شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 44ویں برسی پر اُن کی صاحبزادی بینظیر بھٹو کی کتاب ’’دختر مشرق‘‘ کا ایک اقتباس آپ کو بتاتے ہیں کہ جس میں وہ لکھتی ہیں ’میں 2 اپریل کی صبح فوج کی طرف سے فراہم کردہ چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی جب میری والدہ اچانک کمرے میں داخل ہوئیں اور کہا کہ پنکی باہر فوجی افسران کا کہنا ہے کہ ہم دونوں بھٹو صاحب سے ملاقات کرلیں حالانکہ آج کا دن ملاقات کا نہیں ہے۔ دونوں کو اکٹھے ملاقات کیلئے بلانے کا مطلب کیا یہ آخری ملاقات ہے۔۔؟‘

جنرل ضیاء الحق نے میرے والد کے قتل کا فیصلہ کرلیا تھا۔ میں نے سوچا کہ ہمیں عالمی رائے عامہ اور عوام تک یہ خبر فوراً پہنچانا چاہئے، میں نے والدہ سے کہا کہ انہیں بتادیں کہ میری طبیعت ناساز ہے لیکن اگر یہ آخری ملاقات ہے تو ہم جانے کیلئے تیار ہیں۔جب میری والدہ ان سے بات کرنے گئیں تو میں نے پہلے سے تحریر شدہ خفیہ پیغام اپنے ایک دوست کو بھجوایا اور بتایا کہ وہ ہمیں آخری ملاقات کیلئے لے جارہے ہیں، تم فوراً غیر ملکی سفیروں تک یہ پیغام پہنچاؤ اور عوام کو متحرک کرکے سڑکوں پر لاؤ۔

میری طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ملاقات اگلے روز کیلئے ملتوی ہوگئی اور اس طرح ہمیں اپنے والد کی جان بچانے کیلئے مزید 24 گھنٹے مل گئے لیکن بی بی سی اردو سروس نے اپنی خبروں میں بتایا کہ 3اپریل کو بھٹو صاحب کیساتھ ہماری آخری ملاقات ہوگی لیکن عوامی احتجاجی کال نہیں دی گئی جس سے ہماری آخری امید ختم ہوگئی۔

 اگلے روز ہم جیل پہنچے۔ میرے والد نے کال کوٹھڑی سے پوچھا کہ تم دونوں آج اکٹھی کیوں آئی ہو؟ میری والدہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ جیل سپرنٹنڈنٹ سے پوچھتے ہیں کیا یہ آخری ملاقات ہے؟ ہاں۔ ’’کیا تاریخ کا تعین ہوگیا ہے؟‘‘

’’کل صبح‘‘ جیل سپرنٹنڈنٹ نے جواب دیا۔

’’کتنے بجے؟‘‘

’’جیل قواعد کے مطابق صبح 5 بجے۔‘‘

’’یہ اطلاع تمہیں کب ملی؟‘‘

’’کل رات‘‘ اس نے رکتے رکتے جواب دیا۔

 ’’اپنے اہل و عیال سے ملاقات کا کتنا وقت دیا گیا ہے؟‘‘

 ’’نصف گھنٹہ‘‘’’جیل قواعد کے مطابق ہمیں ایک گھنٹہ ملاقات کا حق ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں۔

’’صرف نصف گھنٹہ‘‘ سپرنٹنڈنٹ دہراتا ہے۔’’ یہ میرے احکامات ہیں۔

بینظیر لکھتی ہیں کہ’’صرف نصف گھنٹہ‘‘ اس شخص سے ملاقات کیلئے۔ صرف نصف گھنٹہ جو مجھے زندگی کی ہر شے سے زیادہ عزیز ہے۔ سینے میں گھٹن محسوس ہورہی تھی۔ مجھے رونا نہیں چاہئے کیونکہ اس سے میرے والد کی اذیت بڑھ جائے گی۔وہ چند سگار جو ان کے وکلاء چھوڑ گئے تھے میرے حوالے کرتے ہیں۔ ’’میں آج شب کیلئے صرف ایک رکھ لیتا ہوں۔‘‘

 شالیمار پرفیوم کی شیشی بھی رکھ لیتے ہیں۔ وہ اپنی انگوٹھی مجھے دینا چاہتے ہیں لیکن میری والدہ انہیں کہتی ہیں ’’اسے پہنے رکھیں۔‘‘

 وہ کہتے ہیں ’’اچھا ابھی میں رکھ لیتا ہوں لیکن بعد میں انگوٹھی بینظیر کو دے دینا۔ ’’تم دونوں نے بہت تکالیف اٹھائی ہیں۔ وہ آج مجھے قتل کرنے جارہے ہیں، میں تمہیں تمہاری مرضی پر چھوڑتا ہوں، ‘‘سپرنٹنڈنٹ پکارتا ہے۔ ’’وقت ختم ہوچکا۔‘‘ میں سلاخوں کو پکڑتے ہوئے اسے کہتی ہوں۔’’برائے مہربانی کوٹھڑی کا دروازہ کھول دو۔میں اپنے پاپا کو چھوکر الوداع کہنا چاہتی ہوں۔‘‘سپرنٹنڈنٹ انکار کردیتا ہے۔

پھر میں سلاخوں کے درمیان سے اپنے والد کے جسم کو چھونے کی کوشش کرتی ہوں۔ وہ کافی نحیف و ناتواں ہوچکے ہیں لیکن سیدھا اٹھ بیٹھتے ہیں اور میرے ہاتھ کو پکڑ کر کہتے ہیں کہ آج شب میں دنیا سے آزاد ہوجائوں گا‘‘ میں والد کی طرف دیکھ کر پکار اٹھتی ہوں،’’ الوداع پاپا۔‘‘ اس دوران میری امی بھی انہیں سلاخوں سے پکڑلیتی ہیں اور اس طرح یہ ہماری آخری ملاقات ختم ہوجاتی ہے ۔

 ’’ہم پھر ملیں گے، اس وقت تک کیلئے خدا حافظ‘‘ مجھے ان کی آواز سنائی دیتی ہے۔ میں جاتے وقت مڑکر دیکھنا نہیں چاہتی کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میں ضبط نہیں کرسکوں گی ۔
 4 اپریل 1979 ء کو راولپنڈی سینٹرل جیل میں انہوں نے میرے والد کو قتل کردیا

 خوفزدہ جیلر نے ہمیں بتایا کہ وہ انہیں دفنانے کیلئے لے جاچکے ہیں لیکن ان کا کچھ بچا کھچا سامان لے آیا ہوں۔ میں نے جیلر سے پوچھا کہ ان کی انگوٹھی کہاں ہے؟ تو اس نے انگوٹھی میرے حوالے کی۔

ذوالفقار علی بھٹو پر کس کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام تھا؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو 44 برس بیت گئے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے ایک قتل کیس میں کوٹ لکھپت جیل کے قیدی نمبر 1772 کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔

یہ واقعہ 11 نومبر 1974ء کو لاہور میں پیش آیا، نواب محمد احمد ایک نامور قانون دان تھے اور احمد رضا قصوری کے والد تھے اور بھٹو کے ناقد بھی تصور کیے جاتے تھے۔

اپنے صاحبزادے احمد رضا قصوری کے ہمراہ سفر کے دوران ان کی کار پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس سے نواب محمد احمد خان قصوری ہلاک ہو گئے تاہم احمد رضا قصوری محفوظ رہے۔
انہوں نے اس حملے اور اپنے والد کی ہلاکت کی ذمے داری ذوالفقار علی بھٹو پر عائد کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ حملہ ان کے حکم پر کرایا گیا تھا اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج کرادی۔

18 مارچ 1978ء کو لاہور ہائی کورٹ نے نواب محمد احمد کے قتل کے جرم میں ذوالفقار علی بھٹو جو سزائے موت سنائی۔

پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں یہ کیس سرد خانے میں پڑا رہا مگر 5 جولائی 1977ء کو جب مارشل لا نافذ ہوا تو اس کیس میں جان پڑگئی۔

ملک میں 3 ستمبر کو معزول وزیرِاعظم کو رات کے اندھیرے میں کلفٹن سے گرفتار کرلیا گیا اور اکتوبر 1977ء میں یہ کیس لوئر کورٹ کے بجائے ہائی کورٹ پہنچ گیا اور اس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی۔

بھٹو نے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اور جب سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو سابق وزیراعظم کو کوٹ لکھپت جیل لاہور سے پنڈی جیل منتقل کردیا گیا اور یہی وہ جگہ تھی جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری 323 دن گزارے۔

واضح رہے کہ آج 44 سال بعد بھی پاکستان پیپلز پارٹی اپنے قائد اور چیئرمین کو پھانسی دیے جانے کو ’’عدالتی قتل‘‘ قرار دیتی ہے۔

Friday, January 13, 2023

2025 تک پاکستان کو درپیش 10 بڑے خطرات کی نشاندہی

ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل رسک رپورٹ نے 2025 تک پاکستان کو درپیش 10 بڑے خطرات کی نشاندہی کردی ہے۔ ان خطرات میں سائبر سیکیورٹی، مہنگائی، بےروزگاری اور معاشی بحران کو شامل کیا گیا ہے۔

 خوراک اور قرضوں کے بحران کا سامنا کرتے پاکستان میں بنیادی اشیاء کی سستے اور مناسب داموں میں عدم فراہمی سماجی اور سیاسی عدم استحکام کو جنم دے سکتی ہے۔

اس بات کی نشاندہی ورلڈ اکنامک فارم کی گلوبل رسک رپورٹ 2023 میں کی گئی، جو 1200 عالمی ماہرین کی رائے پر مبنی ہے۔

رپورٹ میں آئندہ دو سالوں میں پاکستان کو 10 بڑے عوامل سے سب سے زیادہ خطرہ بھی بتایا گیا ہے۔

ان خطرات میں ڈیجیٹل پاور کنسنٹریشن یعنی اہم ڈیجیٹل اثاثوں، صلاحیتوں کے علم پر چند لوگوں یا ریاست کے کنٹرول ہونے، سائبر سیکیورٹی کے اقدامات یعنی ڈیٹا فراڈ یا ڈیٹا کی چوری روکنے میں ناکام اور سائبر جاسوسی شامل ہے۔

خطرات میں تیزی سے بڑھتی مہنگائی، قرضوں کے بحران، ریاست کے ٹوٹنےکے خطرات، وسیع پیمانے پر ڈیجیٹل خدمات کی عدم فراہمی، صوبوں میں تنازعات، ماحولیاتی نظام کی تباہی، دہشت گردی اور بے روزگار ی اور معاشی بحران کا ذکر کیا گیا۔

رپورٹ میں پاکستان کو ان ممالک میں شامل کیا گیا جہاں شدید موسمی حالات اور سپلائی چین میں رکاوٹیں موجودہ رہن سہن کے اخراجات میں مزید اضافے کا باعث بن سکتی ہے اور لاکھوں افراد خوراک کی عدم دستیابی کے باعث بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم نے رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ 2022 کے سیلاب میں پاکستان میں 8 لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلی فصلیں تباہ ہوگئیں، جس سے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں پانی کی بڑھتی ہوئی کمی اور پڑوسی ممالک کے درمیان تعاون کے طریقہ کار کے مفلوج ہونے کے باعث آبی تنازعات بڑھنے کے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ بھارت، پاکستان اور افغانستان سمیت خطے کے دیگر ممالک علاقائی تنازعات میں پانی کے انفرااسٹرکچر کو ہتھیار یا ہدف کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

Wednesday, January 11, 2023

ایسا لگتا ہے پاکستان آئندہ 6 ماہ میں ڈیفالٹ سے بچ جائے گا: بلومبرگ

ایسا لگتا ہے پاکستان آئندہ 6 ماہ میں ڈیفالٹ سے بچ جائے گا: بلومبرگ

غیر ملکی جریدے بلومبرگ نے رپورٹ میں کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے پاکستان آئندہ 6 ماہ میں ڈیفالٹ سے بچ جائے گا لیکن پاکستان کی مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔

بلومبرگ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو جون کے آخر تک آئی ایم ایف کی رقم فائدہ دے گی، پاکستان میں سرمایہ کاروں کو ڈالرز میں بڑے قرض کی واپسی کی فکر ہے اور یہ قرض کی واپسی اپریل 2024 میں ہونی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو مزید بیرونی امداد چاہیے ہوگی، آئی ایم ایف پاکستان کی باقی ماندہ قسط روک سکتا ہے تاہم سیلاب اور پاکستان کی ضروریات کے باعث ایسا نظر نہیں آتا۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ضروریات میں اندازاً 8.8 ارب ڈالرز کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ شامل ہے، ان ضروریات میں 2.2 ارب ڈالرز کی غیرملکی قرضوں کی ادائیگی شامل ہے، ان میں اپریل 2024 میں ایک ارب ڈالرز بانڈکی میچورنگ بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارکیٹ رسک اسسمنٹ کے مطابق پاکستان کو آئی ایم ایف یا دیگر قرض دہندگان سے مزید بیرونی امداد کی ضرورت ہو گی
#DailyParwan #ParwanNews #Pakistan #bloomberg

Sunday, November 06, 2022

ڈاکوؤں کے حملے میں شہید ہونے والے ڈی ایس پی اوباڑو عبدالمالک بھٹو اور ایس ایچ او میر پور ماتھیلو عبدالمالک کی یادگار تصاویر

ڈاکوؤں کے حملے میں شہید ہونے والے ڈی ایس پی اوباڑو عبدالمالک بھٹو اور ایس ایچ او میر پور ماتھیلو عبدالمالک کی یادگار تصاویر

گھوٹکی: ڈی ایس پی، 2 ایس ایچ او سمیت 5 اہلکار شہید

گھوٹکی: ڈی ایس پی، 2 ایس ایچ او سمیت 5 اہلکار شہید



گھوٹکی: سندھ کے علاقے گھوٹکی میں ڈاکوؤں کے حملے میں ڈی ایس پی اور 2 ایس ایچ اوز سمیت 5 پولیس اہلکار شہید ہو گئے۔گھوٹکی میں رونتی کچے کے علاقے میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں ڈی ایس پی اوباڑو، ایس ایچ او کھینجو اور ایس ایچ او میرپور ماتھیلو شہید ہو گئے جبکہ دیگر 5 پولیس اہلکار بھی ڈاکوؤں کی فائرنگ سے شہید ہوئے، پولیس کے مطابق ڈاکوؤں نے 8 پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا اور چند روز قبل اوباڑو سے 3 افراد کو ڈاکوؤں نے اغوا بھی کر لیا تھا، مغویوں کی بازیابی کے لیے پولیس کی جانب سے ٹارگیٹڈ آپریشن کیا جا رہا تھا، ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی کے مطابق مغویوں کی بازیابی کے لیے کچے میں آپریشن کے لیے پولیس کیمپ قائم کیا گیا تھا جس پر 150 سے زائد ڈاکوؤں نے پولیس کیمپ پر حملہ کیا، انہوں نے کہا کہ پولیس کی بھاری نفری کچے میں روانہ کی ہے اور کچے کے علاقے میں مغویوں کی بازیابی کے لیے آپریشن جاری ہے، 

Saturday, November 05, 2022

آئی ایس پی آر نے عمران خان کے الزامات کو بےبنیاد اور ناقابل قبول قرار دیدیا

آئی ایس پی آر نے عمران خان کے الزامات کو بےبنیاد اور ناقابل قبول قرار دیدیا



 فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے ادارے اور سینئر افسر کیخلاف الزامات کو بے بنیاد اور ناقابل قبول قرار دے دیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ حکومت سے معاملے کی تحقیقات کی درخواست ہے، جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگانے والے عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔ پاک فوج ایک پروفیشنل اور ڈسپلن رکھنے والی تنظیم ہے۔ وردی پوش اہلکاروں کے ذریعے غیرقانونی کارروائیوں کیلئے احتسابی نظام موجود ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ذاتی مفادات کی خاطر الزامات لگا کر رینک اینڈ فائلز کی عزت اور وقار کو داغدارکیا جا رہا ہے، ادارہ حسد سے اپنے افسروں اور سپاہیوں کی حفاظت کرے گا، کسی کو بھی ادارے یا افسروں کی بے عزتی کی اجازت نہیں دی جائےگی۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ معاملے کی تحقیقات کرے اور بغیر کسی ثبوت کے ادارے اور اس کے عہدیداروں کے خلاف ہتک عزت اور جھوٹے الزامات کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرے۔

Friday, October 21, 2022

اڈیرو لال: سندھ کی وہ قدیم درگاہ جہاں مندر اور مسجد ساتھ ساتھ ہیں

سندھ جنوبی ایشیا کا ایک ایسا خطہ رہا ہے جس کا اہم ترین تعارف مذہبی رواداری ہے۔ اس کی مثالیں نہ صرف ہمیں مشترکہ ہندوستان کے زمانے میں ملتی ہیں بلکہ اب بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ سندھ میں صوفیا کرام کی درگاہیں ہر مذہب کے ماننے والے کا بانھیں کھولے استقبال کرتی نظر آتی ہیں۔ لال شہباز سے لے کر، بھٹ شاہ، سمن سرکار اور سادھو بیلو تک کئی ایسی درگاہیں ہیں جہاں لوگ عام دنوں میں تو جاتے ہی ہیں مگر عرس اور دیگر تقریبات میں دوسرے ممالک سے بھی لوگ یہاں آتے ہیں اور یہ شرکت بنا کسی مذہبی تفریق کے ہوتی ہے۔ لیکن سندھ میں ایک ایسی درگاہ آج بھی پوری دنیا کے انسانوں کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے، جس کی خاصیت سندھ میں دیگر درگاہوں سے کافی الگ تھلگ ہے۔یہ ’اڈیرو لال‘ کی درگاہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ حیدر آباد سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ٹنڈو آدم شہر سے قبل اڈیرو لال کا چھوٹا سا شہر آتا ہے، جہاں یہ درگاہ صدیوں سے قائم ہے۔ اڈیرو لال کو ’پانی کا پیر‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ مقامی روایات میں مشہور ہے کہ وہ ’پانی میں مچھلی پر بیٹھ کر سفر کیا کرتے تھے۔‘جس طرح ہر مقام سے جڑے چند قصے ہوتے ہیں اور تاریخ کے اوراق اُلٹ پلٹ کر حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے، اسی طرح جب اڈیرو لال کے حوالے سے جاننا چاہا تو ہمیں بھی بہت کچھ ملا۔ یہ ایسی درگاہ ہے جہاں مندر اور مسجد ساتھ ساتھ ہیں۔ مندر میں ہندو پوجا کرتے ہیں اور مسجد میں مسلمان نماز پڑھتے ہیں جبکہ ان دونوں عبادت گھروں کے بیچ اڈیرو لال کا مزار ہے۔ اڈیرو لال کے حوالے سے ہندو اور مسلمان اپنی اپنی روایات بیان کرتے ہیں لیکن آج تک کبھی اس بات پر کوئی فساد نہیں ہوا۔ اڈیرو لال کی پیدائش کے حوالے سے دو روایتیں معروف ہیں۔ 19ویں صدی کے تاریخ دان بھیرو مل مہرچند آڈوانی اپنی کتاب ’سندھی بولی جی تاریخ‘ میں لکھتے ہیں کہ اڈیرو لال 1007 میں سندھی کلینڈر کے مطابق نصرپور میں رتن رائی چند لوہانہ کے گھر میں ’چیٹی چنڈ’ کے ماہ میں پیدا ہوئے۔ ’چیٹی چنڈ‘ سندھی کیلینڈر کا مہینہ ہے، جسے سندھی کا نیا سال بھی کہا جاتا ہے۔ چیٹی چنڈ کی ابتدا مارچ اور اپریل کے درمیان ہوتی ہے اور اس ماہ میں سندھ کے لوگ اڈیرو لال کا میلہ اور ان کی سالگرہ بھی مناتے ہیں۔ آڈوانی اپنی ایک اور کتاب ’قدیم سندھ‘ جبکہ ’حیدرآباد جی تاریخ‘ کے مصنف حسین بادشاہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ٹنڈو آدم کسی زمانے میں نصرپور کا حصہ تھا، یہ مغل سلطنت کے دور میں انتظامی ضلع رہا جبکہ دریائے سندھ اس وقت مٹیاری سے گزرتا تھا۔ مٹیاری بھی نصرپور کا حصہ تھا۔ جب دریا نے اپنا رُخ تبدیل کیا تو ٹنڈو آدم کا جغرافیہ بھی تبدیل ہو گیا۔ لیکن اڈیرو لال سے ایک اور دلچسپ کہانی بھی جڑی ہے، جس کے مطابق ٹھٹھہ میں ایک ظالم حکمران مرکھ شاہ تھا، جو 10ویں صدی میں لوگوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر معمور تھا۔ مظالم سے تنگ آ کر ہندوؤں نے دریائے سندھ کے کنارے مذببی رسومات ادا کر کے عبادتیں شروع کر دیں اور خدا کو مدد کے لیے پکارا۔یہ بھی پڑھیےگاؤں جو پاکستان کا ’ویٹیکن سٹی‘ کہلاتا ہےبلھا! کی جاناں میں کون؟ ایک قبر مگر دعویدار تین مذاہبسات بہنوں کی درگاہ جہاں آج بھی خواتین منتیں لے کر آتی ہیں40 روز بعد ایک نوجون گھڑ سوار نمودار ہوا اور اس نے مرکھ شاہ سے کہا کہ وہ معصوم لوگوں پر مظالم ڈھانا بند کرے۔ اس کے 40 برس بعد، آڈوانی کے مطابق ایک لڑکارتن چند بھائی بند کے گھر نصرپو میں پیدا ہوا، جس کا نام ’اڈیرو لال‘ رکھا گیا۔ اڈیرو لال نام کے بارے میں ایک خیال یہ ہے کہ یہ سنسکرت کے لفظ اڈو سے اخذ کیا گیا ہے، جس کے معنی ’پانی‘ ہے، بعد میں یہ لفظ تبدیل ہو کر ’اڈر‘ بن گیا جبکہ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ یہ لفط سندھی لفظ ’اڈر‘ ہے، جس کے معنی ’اڑنا‘ ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور قصہ جو اڈیرو لال سے منسوب کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اڈیرو لال کی والدہ نے انھیں اپنا دودھ پلانے سے قبل دریائے سندھ کے پانی کے چند قطرے منھ میں ڈالے تھے۔ اسی وجہ سے اڈیرو لال پانی وارو پیر، ’دریا جو اوتار‘ یا ’پلے وارو پیر‘ کہلاتے ہیں لیکن وہ عام طور پر جھولے لال کے نام سے مشہور ہیں۔آج بھی اڈیرو لال کو ہندو اور مسلمان بنا کسی تفریق کے اپنا ’مرشد‘ مانتے ہیں۔ ہر سال اپریل کے مہینے میں انڈیا اور دیگر ممالک میں بسنے والے ان کے عقیدت مند میلے میں آتے ہیں، جس کا تمام تر انتظام درگاہ کے منتظم ہندو اور مسلمان مل کر کرتے ہیں۔یہاں ہندو مسلم ہر قسم کی رسومات میں شریک ہوتے ہیں اور اڈیرو لال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ وہ درگاہ پر ’بھجن‘ اور ’پنجڑا‘ گاتے ہیں۔ ان تمام تر رسومات کی شروعات دیا جلا کر کی جاتی ہے، اس کے بعد عقیدت مند ایک بڑا سا تھال سجاتے ہیں، جس میں مٹھایاں، پھل اور گلاب رکھے جاتے ہیں، اس کے بعد دریائے سندھ کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔ان میں سے ایک رسم کو ’بہرانو‘ کہا جاتا ہے۔ جس میں پیتل کی ایک جھوٹی سی تھالی میں دیا جلایا جاتا ہے اور آٹے کے پیڑے، مصری کی ڈلیاں، اگر بتیاں اور مٹھایاں رکھی جاتی ہیں۔ اس موقع پر ڈانڈیا ڈانس بھی کیا جاتا ہے، جو اس رسم کا اہم ترین حصہ ہے۔ سفید، پیلے اور نیلے رنگ میں سجی ہوئی اس درگاہ میں پیلو کا ایک درخت آج بھی موجود ہے جس کے بارے میں اڈیرو کے عقیدت مندوں کا کہنا ہے کہ آج سے کئی سال قبل اس درخت سے شکر نکلتی تھی لیکن اس کہانی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ درخت آج بھی موجود ہے مگر شکر کھانے کو نہیں ملتی۔اڈیرو لال کے مزار والا کمرہ شیشے سے بنا ہوا ہے اور چھت میں بادگیر لگے ہوئے ہیں، جن میں سے ٹھنڈی ہوا کا آسانی سے گزر ہوتا ہے اور دیواروں میں دیا جلانے کی کافی جگہیں ہیں جہاں دیے جلتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اڈیرو لال کے استعمال کی اشیا بھی موجود ہیں جن میں ایک لکڑی کا جوتا بھی ہے، جسے ’چاکھڑی‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں چندے کے لیے ایک ڈبہ ہے، جس میں مندر اور مسجد دونوں کے لیے چندہ جمع کیا جاتا ہے۔ درگاہ متولی عبداللہ شیخ نے بتایا کہ ’دہائیوں سے ہم ہندوؤں کے ساتھ سکون سے رہ رہے ہیں۔ یہ درگاہ ہمیں امن اور رواداری کا درس دیتی ہے اور ہم اس کے ماننے والے ہیں۔‘’جب بھی یہاں میلہ لگتا ہے تو ہندو برادری مسجد اور درگاہ کے لیے بھی چندہ دیتی ہے۔ اسی طرح یہ ہمارے فرائض میں شامل ہے کہ ہم مندر کی دیکھ بھال کریں۔ یہاں کسی قسم کی تفریق نہیں کیونکہ یہ نہ صرف اڈیرو لال درگاہ کی تعیلمات ہیں بلکہ سندھ میں بسنے والے سبھی لوگ مذہبی روادرای کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔‘محقق و ادیب نور احمد جنجھی کا کہنا ہے کہ ’یہ درگاہ درحقیقت ایک خانقاہ ہے۔ جس کی تعمیر کا نمونہ مغلیہ طرز تعمیر سے ملتا جلتا ہے۔ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ کس سنہ میں تعمیر ہوئی۔ یہ ہندو مسلمانوں کا مشترکہ ورثہ ہے جس میں مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اس کی مزید تعمیر کروائی تھی۔‘’لہٰذا یہ ایک قلعہ نما عمارت بھی دکھائی دیتی ہے۔ یہ تعمیر کردہ عمارت ایک خانقاہ سے ایک ایسی مذہبی رواداری والی عمارت میں تبدیل ہو چکی ہے جس میں دونوں عقیدوں کے ماننے والے موجود ہیں۔ درگاہ سے قبل یہاں ایک چھوٹی سی عمارت تھی جسے شاہ جہاں بادشاہ نے مزید بڑھایا۔‘نور احمد جنجھی مزید کہتے ہیں ’سندھ میں ایسی جو بھی درگاہیں یا خانقاہیں ہیں، انھیں اتنا بہتر کیا جائے کہ امن پیدا ہو سکے کیونکہ یہاں مختلف عقائد کے اثرات رہے ہیں۔ یہ درگاہ بقائے باہمی کا اہم ترین مظہر ہے۔‘اڈیرو لال کے مزار پر آئے ایک عقیدت مند نے کہا کہ ’ہمارے لیے اڈیرو لال کسی مسیحا سے کم نہیں۔ جب بھی میری زندگی میں کوئی مشکل گھڑی آتی ہے تو میں یہاں آتا ہوں۔‘’اس بار ہم اپنے بیٹوں کی شادی کے لیے آئے ہیں تاکہ اڈیرو لال سے رحمتیں ہم پر برستی رہیں۔ یہ ہماری ایک رسم ہے جو ہمارے آباؤ اجداد سے چلی آ رہی ہے اور اب ہماری نئی نسل بھی اسی نقش قدم پر چل رہی ہے۔‘اڈیرو لال کے شیو مندر میں لوگ شادی سے قبل دولہا کو یہاں زیارت اور ماتھا ٹیکنے کی رسم ادا کرنے کے لیے لاتے ہیں۔ جہاں کافی موج مستی کی جاتی ہے اور دولہا کے کپڑے پھاڑے جاتے ہیں۔ یہ رسم خوشی کے اظہار کے لیے کی جاتی ہے۔مزید پڑھیےیہ بھی پڑھیے مسلمان نہیں سکھ ہیں اس درگاہ کے خادم سات بہنوں کی درگاہ جہاں آج بھی خواتین منتیں لے کر آتی ہیں’کیا پتہ تھا کہ زندگی کی آخری دھمال ہو گی‘اڈیرو لال جہاں لوگوں کے لیے روحانی سکون کا ایک مسکن ہے تو دوسری جانب یہاں آنے والے یہ شکایت بهی کرتے ہیں کہ انھیں یہاں حاضری دینے کے لیے کئی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ انڈیا سے آنے والوں کو ویزے میں کئی دشواریاں حائل ہیں۔ ننکانہ صاحب میں جس طرح سکھوں کے لیے سہولیات پیدا کی گئی ہیں اسی طرح اڈیرو لال کی زیارت کرنے والے اپنے لیے بھی ایسا ہی مطالبہ کرتے ہیں تاکہ اڈیرو لال کی درگاہ جو کہ سندھ میں مذہبی ہم آہنگی کا سب سے بڑا مظہر بنا ہوا ہے، اسے دیکھنے کے لیے دنیا کے تمام لوگوں کے لیے کوئی روکاٹ باقی نہ رہے۔

Featured Post

ایران کا صبح سویرے اسرائیل پر ایک اور بڑا حملہ، بلیسٹک، ہائپر سونک میزائلوں اور ڈرونز کا استعمال، 8 افراد زخمی، 200 سے زائد زخمی

ایران نے اسرائیلی لڑاکا طیاروں کو تیل فراہم کرنے والی تنصیبات کو نشانہ بنایا، حملے سے حیفہ میں ریفائنریز میں آگ لگ گئی وعدہ صادق سوم کے تحت...