لندن: سائنسدانوں ںے خبردار کیا ہے کہ بالخصوص شہروں میں رہنے والی آبادی اگلے دوعشروں میں ستاروں بھرے آسمان کے دلفریب منظر سے محروم ہو جائے گی۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے روشنی کی آلودگی کو قرار دیا ہے، ممتاز برطانوی سائنسداں، سر مارٹِن ریس نے بھی کہا ہے کہ رات کا تاروں بھرا آسمان ہماری تہذیب کا حصہ رہا ہے اور اگلی نسل اب یہ منظر نہیں دیکھ سکے گی۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے درختوں کے پرندے غائب ہوجائیں اور گھونسلے فنا ہوجائیں، گزشتہ چند برسوں میں دنیا بھر کے شہروں میں طرح طرح کی طاقتور روشنیاں بڑھتی جارہی ہیں جس سے رات کی تاریکی ختم ہو رہی ہے اور روشنی کی اس دھند میں ستارے تیزی سے غائب ہورہے ہیں۔ 2016 کے بعد سے اب تک کرہ ارض کی ایک تہائی آبادی رات کو ملکی وے کے شاندار نظارے سے محروم ہوچکی ہے، دوسری جانب، جرمن مرکز برائے ارضی طبعیات کے ماہر کرسٹوفر کائبہ نے کہا اگر آج پیدا ہونے والا کوئی بچہ رات 250 ستارے دیکھ سکتا ہے تو 18 برس کی عمر میں آسمان پر نظرآنے والے ستاروں کی تعداد کم ہوکر صرف 100 تک ہوجائے گی، ماہرین نے زور دیا کہ چند اقدامات سے روشنی کی آلودگی (لائٹ پلیوشن) کم کی جاسکتی ہے۔ روشنی کے اوپر چھتری نما رکاوٹ رکھی جائے۔ روشنیوں کا رخ زمین کی جانب رکھا جائے۔ اسی طرح روشنیاں مدھم رکھی جائیں اور سفید یا نیلی روشنیوں کی جگہ سرخ یا نارنجی روشنیاں ہی استعمال کی جائیں۔ ان اقدامات پر عمل کرکے بہت سے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں،
Search This Blog
Wednesday, May 31, 2023
Tuesday, May 30, 2023
دماغ کو کھانے والا جراثیم ’نگلیریا‘ ایک بار پھر متحرک ہوگیا
دماغ کو کھانے والا جراثیم ’نگلیریا‘ ایک بار پھر متحرک ہوگیا، یہ جان لیوا جراثیم ناک کے ذریعے انسانی دماغ تک پہنچتا ہے اور اس کے ٹشوز کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔
نیگلیریا فاؤلری ایک دماغ خور جرثومہ ہے، جب کوئی فرد نیگلیریا فاؤلری سے آلودہ پانی میں نہاتا ہے یا ناک صاف کرتا ہے یا کسی اور طریقے سے پانی اگر ناک میں چلا جائے تو یہ جرثومہ ناک کے ذریعے دماغ میں جاکر دماغ کا اگلا حصہ کھانا شروع کر دیتا ہے۔
نیگلیریا کوئی بیکٹیریا یا وائرس نہیں ہے بلکہ ایک خلوی جاندار امیبا کی ایک قسم ہے جو دوسروں سے خوراک حاصل کرتا ہے، یہ جاندار صاف پانی میں پایا جاتا ہے اور عام طور پر تالاب، سوئمنگ پول یا گھر میں پانی کی ٹنکیوں میں ملتا ہے۔
نیگلیریا فاؤلری سے متاثر ہونے والے فرد کو پہلے ہلکا سر درد ہوتا ہے جس کے بعد بخار اورغنودگی طاری ہونے لگتی ہے، طبیعت زیادہ خراب ہونے پر جب ہسپتال لایا جاتا ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور تب تک یہ جرثومہ فرد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکا ہوتا ہے، اس جرثومے سے متاثر 95 فیصد افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔جرثومے سے متاثر ہونے کے بعد علاج بہت مشکل ہے، اس لیے صرف احتیاط سے ہی اس مرض سے بچا جاسکتا ہے۔
نیگلیریا جراثیم پانی میں کلورین یا کپڑے دھونے کے لیے استعمال ہونے والے بلیچ سے ختم ہو جاتا ہے، اس لیے لوگ اپنے گھروں کی ٹنکیوں میں کلورین کا استعمال کریں۔
Saturday, May 20, 2023
باڈی لینگوئج سب بتا دیتی ہے اور۔۔ وہ 7 غلطیاں جو آپ کو فوری چھوڑ دینی چاہئیں ورنہ شرمندگی ہوسکتی ہے
باڈی لینگوئج سب بتا دیتی ہے اور۔۔ وہ 7 غلطیاں جو آپ کو فوری چھوڑ دینی چاہئیں ورنہ شرمندگی ہوسکتی ہے | ||||||||||||||||||||||||||||
|
Friday, May 19, 2023
گٹکا و ماوا فروشوں کو پولیس سرپرستی حاصل، اسپیشل برانچ کی رپورٹ
گٹکا و ماوا فروشوں کو پولیس سرپرستی حاصل، اسپیشل برانچ کی رپورٹ
کراچی (اسٹاف رپورٹر) کراچی اور اندرون سندھ میں 6496 گْٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 452 غیر فعال ہیں جب کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں 543 گٹکا ماوا فروشوں کو پولیس سرپرستی حاصل ہے، شہر قائد سمیت صوبے بھر میں گٹکا، ماوے کا مکروہ دھندہ زور وشور سے جاری ہے آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی ٹاسک فورس کی کارروائیوں کے باوجود گٹکا ماوا مافیا کو لگام نہ ڈالی جا سکی، ایس ایچ اوز اور دیگر پولیس افسران واہلکاروں کی سرپرستی میں چلنے والے دھندے کے خلاف مصنوعی کارروائیاں کی جا رہی ہیں ٹاسک فورس کی کارروائیوں میں کمزور تھانیدار اور اہلکار تبدیل ہوئے ہیں اسپیشل برانچ کی رپورٹ نے پولیس کی سرپرستی میں چلنے والے دھندے سے متعلق حقائق سے پردہ اٹھا دیا، رپورٹ میں بتایا گیا کہ کراچی سمیت صوبے بھر میں 6496 گٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 452 غیر فعال ہیں کراچی سمیت سندھ بھر میں 543 گٹکا ماوا فروشوں کو پولیس سرپرستی حاصل ہے رپورٹ میں بتایا گیا کہ سب سے زیادہ 2782 گٹکا ماوا فروش حیدرآباد میں موجود ہیں جن میں سے 66 غیر فعال ہیں اور 259 گٹکا ماوا فروشوں کو پولیس سرپرستی حاصل ہے، رپورٹ کے مطابق کراچی میں 1326 گٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 341 غیر فعال ہیں اور 144 گٹکا ماوا فروشوں کو پولیس کی پْشت پناہی حاصل ہے، رپورٹ کے مطابق میرپور خاص میں 935 گْٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے ایک گٹکا ماوا فروش غیر فعال ہے اور 39 کو پولیس سرپرستی حاصل ہے، اسپیشل برانچ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ شہید بے نظیر آباد میں 964 گٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 2 گٹکا ماوا فروش غیر فعال ہیں جبکہ 84 گٹکا ماوا فروش کو پولیس کی پشت پناہی حاصل ہے، پورٹ میں بتایا گیا کہ سکھر میں 175 گٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 23 گٹکا ماوا فروش غیرفعال ہیں اور 29 کو پولیس سرپرستی حاصل ہے، رپورٹ کے مطابق لاڑکانہ 314 گٹکا ماوا فروش موجود ہیں جن میں سے 19 گٹکا ماوا فروش غیرفعال ہیں اور 2 گٹکا ماوا فروشوں کو پولیس کی پشت پناہی حاصل ہے، رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں 5749 گٹکا ماوا فروش مکروہ دھندہ کر رہے ہیں جبکہ 66 گٹکا ماوا فروش جیلوں میں بند ہیں 434 گٹکا ماوا فروش ضمانتوں پر ہیں، 73 گٹکا ماوا فروش مفرور ہیں، 136 گٹکا ماوا فروشوں نے اپنا کام بند کردیا جبکہ دیگر میں 38 گٹکا ماوا فروش شامل ہیں،
Friday, April 07, 2023
Tuesday, April 04, 2023
بینظیر بھٹو اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کی آخری ملاقات کا احوال
شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 44ویں برسی پر اُن کی صاحبزادی بینظیر بھٹو کی کتاب ’’دختر مشرق‘‘ کا ایک اقتباس آپ کو بتاتے ہیں کہ جس میں وہ لکھتی ہیں ’میں 2 اپریل کی صبح فوج کی طرف سے فراہم کردہ چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی جب میری والدہ اچانک کمرے میں داخل ہوئیں اور کہا کہ پنکی باہر فوجی افسران کا کہنا ہے کہ ہم دونوں بھٹو صاحب سے ملاقات کرلیں حالانکہ آج کا دن ملاقات کا نہیں ہے۔ دونوں کو اکٹھے ملاقات کیلئے بلانے کا مطلب کیا یہ آخری ملاقات ہے۔۔؟‘
جنرل ضیاء الحق نے میرے والد کے قتل کا فیصلہ کرلیا تھا۔ میں نے سوچا کہ ہمیں عالمی رائے عامہ اور عوام تک یہ خبر فوراً پہنچانا چاہئے، میں نے والدہ سے کہا کہ انہیں بتادیں کہ میری طبیعت ناساز ہے لیکن اگر یہ آخری ملاقات ہے تو ہم جانے کیلئے تیار ہیں۔جب میری والدہ ان سے بات کرنے گئیں تو میں نے پہلے سے تحریر شدہ خفیہ پیغام اپنے ایک دوست کو بھجوایا اور بتایا کہ وہ ہمیں آخری ملاقات کیلئے لے جارہے ہیں، تم فوراً غیر ملکی سفیروں تک یہ پیغام پہنچاؤ اور عوام کو متحرک کرکے سڑکوں پر لاؤ۔
میری طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ملاقات اگلے روز کیلئے ملتوی ہوگئی اور اس طرح ہمیں اپنے والد کی جان بچانے کیلئے مزید 24 گھنٹے مل گئے لیکن بی بی سی اردو سروس نے اپنی خبروں میں بتایا کہ 3اپریل کو بھٹو صاحب کیساتھ ہماری آخری ملاقات ہوگی لیکن عوامی احتجاجی کال نہیں دی گئی جس سے ہماری آخری امید ختم ہوگئی۔
اگلے روز ہم جیل پہنچے۔ میرے والد نے کال کوٹھڑی سے پوچھا کہ تم دونوں آج اکٹھی کیوں آئی ہو؟ میری والدہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ جیل سپرنٹنڈنٹ سے پوچھتے ہیں کیا یہ آخری ملاقات ہے؟ ہاں۔ ’’کیا تاریخ کا تعین ہوگیا ہے؟‘‘
’’کل صبح‘‘ جیل سپرنٹنڈنٹ نے جواب دیا۔
’’کتنے بجے؟‘‘
’’جیل قواعد کے مطابق صبح 5 بجے۔‘‘
’’یہ اطلاع تمہیں کب ملی؟‘‘
’’کل رات‘‘ اس نے رکتے رکتے جواب دیا۔
’’اپنے اہل و عیال سے ملاقات کا کتنا وقت دیا گیا ہے؟‘‘
’’نصف گھنٹہ‘‘’’جیل قواعد کے مطابق ہمیں ایک گھنٹہ ملاقات کا حق ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں۔
’’صرف نصف گھنٹہ‘‘ سپرنٹنڈنٹ دہراتا ہے۔’’ یہ میرے احکامات ہیں۔
بینظیر لکھتی ہیں کہ’’صرف نصف گھنٹہ‘‘ اس شخص سے ملاقات کیلئے۔ صرف نصف گھنٹہ جو مجھے زندگی کی ہر شے سے زیادہ عزیز ہے۔ سینے میں گھٹن محسوس ہورہی تھی۔ مجھے رونا نہیں چاہئے کیونکہ اس سے میرے والد کی اذیت بڑھ جائے گی۔وہ چند سگار جو ان کے وکلاء چھوڑ گئے تھے میرے حوالے کرتے ہیں۔ ’’میں آج شب کیلئے صرف ایک رکھ لیتا ہوں۔‘‘
شالیمار پرفیوم کی شیشی بھی رکھ لیتے ہیں۔ وہ اپنی انگوٹھی مجھے دینا چاہتے ہیں لیکن میری والدہ انہیں کہتی ہیں ’’اسے پہنے رکھیں۔‘‘
وہ کہتے ہیں ’’اچھا ابھی میں رکھ لیتا ہوں لیکن بعد میں انگوٹھی بینظیر کو دے دینا۔ ’’تم دونوں نے بہت تکالیف اٹھائی ہیں۔ وہ آج مجھے قتل کرنے جارہے ہیں، میں تمہیں تمہاری مرضی پر چھوڑتا ہوں، ‘‘سپرنٹنڈنٹ پکارتا ہے۔ ’’وقت ختم ہوچکا۔‘‘ میں سلاخوں کو پکڑتے ہوئے اسے کہتی ہوں۔’’برائے مہربانی کوٹھڑی کا دروازہ کھول دو۔میں اپنے پاپا کو چھوکر الوداع کہنا چاہتی ہوں۔‘‘سپرنٹنڈنٹ انکار کردیتا ہے۔
پھر میں سلاخوں کے درمیان سے اپنے والد کے جسم کو چھونے کی کوشش کرتی ہوں۔ وہ کافی نحیف و ناتواں ہوچکے ہیں لیکن سیدھا اٹھ بیٹھتے ہیں اور میرے ہاتھ کو پکڑ کر کہتے ہیں کہ آج شب میں دنیا سے آزاد ہوجائوں گا‘‘ میں والد کی طرف دیکھ کر پکار اٹھتی ہوں،’’ الوداع پاپا۔‘‘ اس دوران میری امی بھی انہیں سلاخوں سے پکڑلیتی ہیں اور اس طرح یہ ہماری آخری ملاقات ختم ہوجاتی ہے ۔
’’ہم پھر ملیں گے، اس وقت تک کیلئے خدا حافظ‘‘ مجھے ان کی آواز سنائی دیتی ہے۔ میں جاتے وقت مڑکر دیکھنا نہیں چاہتی کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میں ضبط نہیں کرسکوں گی ۔
4 اپریل 1979 ء کو راولپنڈی سینٹرل جیل میں انہوں نے میرے والد کو قتل کردیا
خوفزدہ جیلر نے ہمیں بتایا کہ وہ انہیں دفنانے کیلئے لے جاچکے ہیں لیکن ان کا کچھ بچا کھچا سامان لے آیا ہوں۔ میں نے جیلر سے پوچھا کہ ان کی انگوٹھی کہاں ہے؟ تو اس نے انگوٹھی میرے حوالے کی۔
ذوالفقار علی بھٹو پر کس کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام تھا؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو 44 برس بیت گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ایک قتل کیس میں کوٹ لکھپت جیل کے قیدی نمبر 1772 کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔
یہ واقعہ 11 نومبر 1974ء کو لاہور میں پیش آیا، نواب محمد احمد ایک نامور قانون دان تھے اور احمد رضا قصوری کے والد تھے اور بھٹو کے ناقد بھی تصور کیے جاتے تھے۔
اپنے صاحبزادے احمد رضا قصوری کے ہمراہ سفر کے دوران ان کی کار پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس سے نواب محمد احمد خان قصوری ہلاک ہو گئے تاہم احمد رضا قصوری محفوظ رہے۔
انہوں نے اس حملے اور اپنے والد کی ہلاکت کی ذمے داری ذوالفقار علی بھٹو پر عائد کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ حملہ ان کے حکم پر کرایا گیا تھا اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج کرادی۔
18 مارچ 1978ء کو لاہور ہائی کورٹ نے نواب محمد احمد کے قتل کے جرم میں ذوالفقار علی بھٹو جو سزائے موت سنائی۔
پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں یہ کیس سرد خانے میں پڑا رہا مگر 5 جولائی 1977ء کو جب مارشل لا نافذ ہوا تو اس کیس میں جان پڑگئی۔
ملک میں 3 ستمبر کو معزول وزیرِاعظم کو رات کے اندھیرے میں کلفٹن سے گرفتار کرلیا گیا اور اکتوبر 1977ء میں یہ کیس لوئر کورٹ کے بجائے ہائی کورٹ پہنچ گیا اور اس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی۔
بھٹو نے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اور جب سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو سابق وزیراعظم کو کوٹ لکھپت جیل لاہور سے پنڈی جیل منتقل کردیا گیا اور یہی وہ جگہ تھی جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری 323 دن گزارے۔
واضح رہے کہ آج 44 سال بعد بھی پاکستان پیپلز پارٹی اپنے قائد اور چیئرمین کو پھانسی دیے جانے کو ’’عدالتی قتل‘‘ قرار دیتی ہے۔
Friday, January 13, 2023
2025 تک پاکستان کو درپیش 10 بڑے خطرات کی نشاندہی
ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل رسک رپورٹ نے 2025 تک پاکستان کو درپیش 10 بڑے خطرات کی نشاندہی کردی ہے۔ ان خطرات میں سائبر سیکیورٹی، مہنگائی، بےروزگاری اور معاشی بحران کو شامل کیا گیا ہے۔
خوراک اور قرضوں کے بحران کا سامنا کرتے پاکستان میں بنیادی اشیاء کی سستے اور مناسب داموں میں عدم فراہمی سماجی اور سیاسی عدم استحکام کو جنم دے سکتی ہے۔
اس بات کی نشاندہی ورلڈ اکنامک فارم کی گلوبل رسک رپورٹ 2023 میں کی گئی، جو 1200 عالمی ماہرین کی رائے پر مبنی ہے۔
رپورٹ میں آئندہ دو سالوں میں پاکستان کو 10 بڑے عوامل سے سب سے زیادہ خطرہ بھی بتایا گیا ہے۔
ان خطرات میں ڈیجیٹل پاور کنسنٹریشن یعنی اہم ڈیجیٹل اثاثوں، صلاحیتوں کے علم پر چند لوگوں یا ریاست کے کنٹرول ہونے، سائبر سیکیورٹی کے اقدامات یعنی ڈیٹا فراڈ یا ڈیٹا کی چوری روکنے میں ناکام اور سائبر جاسوسی شامل ہے۔
خطرات میں تیزی سے بڑھتی مہنگائی، قرضوں کے بحران، ریاست کے ٹوٹنےکے خطرات، وسیع پیمانے پر ڈیجیٹل خدمات کی عدم فراہمی، صوبوں میں تنازعات، ماحولیاتی نظام کی تباہی، دہشت گردی اور بے روزگار ی اور معاشی بحران کا ذکر کیا گیا۔
رپورٹ میں پاکستان کو ان ممالک میں شامل کیا گیا جہاں شدید موسمی حالات اور سپلائی چین میں رکاوٹیں موجودہ رہن سہن کے اخراجات میں مزید اضافے کا باعث بن سکتی ہے اور لاکھوں افراد خوراک کی عدم دستیابی کے باعث بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم نے رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ 2022 کے سیلاب میں پاکستان میں 8 لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلی فصلیں تباہ ہوگئیں، جس سے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں پانی کی بڑھتی ہوئی کمی اور پڑوسی ممالک کے درمیان تعاون کے طریقہ کار کے مفلوج ہونے کے باعث آبی تنازعات بڑھنے کے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ بھارت، پاکستان اور افغانستان سمیت خطے کے دیگر ممالک علاقائی تنازعات میں پانی کے انفرااسٹرکچر کو ہتھیار یا ہدف کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
Wednesday, January 11, 2023
ایسا لگتا ہے پاکستان آئندہ 6 ماہ میں ڈیفالٹ سے بچ جائے گا: بلومبرگ
ایسا لگتا ہے پاکستان آئندہ 6 ماہ میں ڈیفالٹ سے بچ جائے گا: بلومبرگ
غیر ملکی جریدے بلومبرگ نے رپورٹ میں کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے پاکستان آئندہ 6 ماہ میں ڈیفالٹ سے بچ جائے گا لیکن پاکستان کی مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔
بلومبرگ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو جون کے آخر تک آئی ایم ایف کی رقم فائدہ دے گی، پاکستان میں سرمایہ کاروں کو ڈالرز میں بڑے قرض کی واپسی کی فکر ہے اور یہ قرض کی واپسی اپریل 2024 میں ہونی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو مزید بیرونی امداد چاہیے ہوگی، آئی ایم ایف پاکستان کی باقی ماندہ قسط روک سکتا ہے تاہم سیلاب اور پاکستان کی ضروریات کے باعث ایسا نظر نہیں آتا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ضروریات میں اندازاً 8.8 ارب ڈالرز کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ شامل ہے، ان ضروریات میں 2.2 ارب ڈالرز کی غیرملکی قرضوں کی ادائیگی شامل ہے، ان میں اپریل 2024 میں ایک ارب ڈالرز بانڈکی میچورنگ بھی شامل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارکیٹ رسک اسسمنٹ کے مطابق پاکستان کو آئی ایم ایف یا دیگر قرض دہندگان سے مزید بیرونی امداد کی ضرورت ہو گی
#DailyParwan #ParwanNews #Pakistan #bloomberg
Sunday, November 06, 2022
ڈاکوؤں کے حملے میں شہید ہونے والے ڈی ایس پی اوباڑو عبدالمالک بھٹو اور ایس ایچ او میر پور ماتھیلو عبدالمالک کی یادگار تصاویر
ڈاکوؤں کے حملے میں شہید ہونے والے ڈی ایس پی اوباڑو عبدالمالک بھٹو اور ایس ایچ او میر پور ماتھیلو عبدالمالک کی یادگار تصاویر
Subscribe to:
Comments (Atom)
Featured Post
ایران کا صبح سویرے اسرائیل پر ایک اور بڑا حملہ، بلیسٹک، ہائپر سونک میزائلوں اور ڈرونز کا استعمال، 8 افراد زخمی، 200 سے زائد زخمی
ایران نے اسرائیلی لڑاکا طیاروں کو تیل فراہم کرنے والی تنصیبات کو نشانہ بنایا، حملے سے حیفہ میں ریفائنریز میں آگ لگ گئی وعدہ صادق سوم کے تحت...
-
حب (نامہ نگار) حبکو پاور پلانٹ گوٹھ قادر بخش گدور کے قریب فائرنگ کرکے پالاری برادری کے دو سگے بھائیوں کو قتل کردیا گیا، مقتول سگ...
-
محکمہ اطلاعات سندہ جامشورو، 4 مارچ 2021 ڈسٹرکٹ انفارميشن آفيس جامشورو کے سابق اسٹينوگرافر عبدالرزاق خاصخيلی کے اچانک انتقال پر ...
-
گھوٹکی میں ساوند اور سندرانی قبیلے کے درمیان چلنے والا تنازع دو سال بعد جرگے کے ذریعے حل ہوگیا، میڈیا رپورٹس کے مطابق تنازع کا ح...


