Search This Blog

Sunday, November 06, 2022

ڈاکوؤں کے حملے میں شہید ہونے والے ڈی ایس پی اوباڑو عبدالمالک بھٹو اور ایس ایچ او میر پور ماتھیلو عبدالمالک کی یادگار تصاویر

ڈاکوؤں کے حملے میں شہید ہونے والے ڈی ایس پی اوباڑو عبدالمالک بھٹو اور ایس ایچ او میر پور ماتھیلو عبدالمالک کی یادگار تصاویر

گھوٹکی: ڈی ایس پی، 2 ایس ایچ او سمیت 5 اہلکار شہید

گھوٹکی: ڈی ایس پی، 2 ایس ایچ او سمیت 5 اہلکار شہید



گھوٹکی: سندھ کے علاقے گھوٹکی میں ڈاکوؤں کے حملے میں ڈی ایس پی اور 2 ایس ایچ اوز سمیت 5 پولیس اہلکار شہید ہو گئے۔گھوٹکی میں رونتی کچے کے علاقے میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں ڈی ایس پی اوباڑو، ایس ایچ او کھینجو اور ایس ایچ او میرپور ماتھیلو شہید ہو گئے جبکہ دیگر 5 پولیس اہلکار بھی ڈاکوؤں کی فائرنگ سے شہید ہوئے، پولیس کے مطابق ڈاکوؤں نے 8 پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا اور چند روز قبل اوباڑو سے 3 افراد کو ڈاکوؤں نے اغوا بھی کر لیا تھا، مغویوں کی بازیابی کے لیے پولیس کی جانب سے ٹارگیٹڈ آپریشن کیا جا رہا تھا، ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی کے مطابق مغویوں کی بازیابی کے لیے کچے میں آپریشن کے لیے پولیس کیمپ قائم کیا گیا تھا جس پر 150 سے زائد ڈاکوؤں نے پولیس کیمپ پر حملہ کیا، انہوں نے کہا کہ پولیس کی بھاری نفری کچے میں روانہ کی ہے اور کچے کے علاقے میں مغویوں کی بازیابی کے لیے آپریشن جاری ہے، 

Saturday, November 05, 2022

آئی ایس پی آر نے عمران خان کے الزامات کو بےبنیاد اور ناقابل قبول قرار دیدیا

آئی ایس پی آر نے عمران خان کے الزامات کو بےبنیاد اور ناقابل قبول قرار دیدیا



 فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے ادارے اور سینئر افسر کیخلاف الزامات کو بے بنیاد اور ناقابل قبول قرار دے دیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ حکومت سے معاملے کی تحقیقات کی درخواست ہے، جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگانے والے عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔ پاک فوج ایک پروفیشنل اور ڈسپلن رکھنے والی تنظیم ہے۔ وردی پوش اہلکاروں کے ذریعے غیرقانونی کارروائیوں کیلئے احتسابی نظام موجود ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ذاتی مفادات کی خاطر الزامات لگا کر رینک اینڈ فائلز کی عزت اور وقار کو داغدارکیا جا رہا ہے، ادارہ حسد سے اپنے افسروں اور سپاہیوں کی حفاظت کرے گا، کسی کو بھی ادارے یا افسروں کی بے عزتی کی اجازت نہیں دی جائےگی۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ معاملے کی تحقیقات کرے اور بغیر کسی ثبوت کے ادارے اور اس کے عہدیداروں کے خلاف ہتک عزت اور جھوٹے الزامات کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرے۔

Friday, October 21, 2022

اڈیرو لال: سندھ کی وہ قدیم درگاہ جہاں مندر اور مسجد ساتھ ساتھ ہیں

سندھ جنوبی ایشیا کا ایک ایسا خطہ رہا ہے جس کا اہم ترین تعارف مذہبی رواداری ہے۔ اس کی مثالیں نہ صرف ہمیں مشترکہ ہندوستان کے زمانے میں ملتی ہیں بلکہ اب بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ سندھ میں صوفیا کرام کی درگاہیں ہر مذہب کے ماننے والے کا بانھیں کھولے استقبال کرتی نظر آتی ہیں۔ لال شہباز سے لے کر، بھٹ شاہ، سمن سرکار اور سادھو بیلو تک کئی ایسی درگاہیں ہیں جہاں لوگ عام دنوں میں تو جاتے ہی ہیں مگر عرس اور دیگر تقریبات میں دوسرے ممالک سے بھی لوگ یہاں آتے ہیں اور یہ شرکت بنا کسی مذہبی تفریق کے ہوتی ہے۔ لیکن سندھ میں ایک ایسی درگاہ آج بھی پوری دنیا کے انسانوں کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے، جس کی خاصیت سندھ میں دیگر درگاہوں سے کافی الگ تھلگ ہے۔یہ ’اڈیرو لال‘ کی درگاہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ حیدر آباد سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ٹنڈو آدم شہر سے قبل اڈیرو لال کا چھوٹا سا شہر آتا ہے، جہاں یہ درگاہ صدیوں سے قائم ہے۔ اڈیرو لال کو ’پانی کا پیر‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ مقامی روایات میں مشہور ہے کہ وہ ’پانی میں مچھلی پر بیٹھ کر سفر کیا کرتے تھے۔‘جس طرح ہر مقام سے جڑے چند قصے ہوتے ہیں اور تاریخ کے اوراق اُلٹ پلٹ کر حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے، اسی طرح جب اڈیرو لال کے حوالے سے جاننا چاہا تو ہمیں بھی بہت کچھ ملا۔ یہ ایسی درگاہ ہے جہاں مندر اور مسجد ساتھ ساتھ ہیں۔ مندر میں ہندو پوجا کرتے ہیں اور مسجد میں مسلمان نماز پڑھتے ہیں جبکہ ان دونوں عبادت گھروں کے بیچ اڈیرو لال کا مزار ہے۔ اڈیرو لال کے حوالے سے ہندو اور مسلمان اپنی اپنی روایات بیان کرتے ہیں لیکن آج تک کبھی اس بات پر کوئی فساد نہیں ہوا۔ اڈیرو لال کی پیدائش کے حوالے سے دو روایتیں معروف ہیں۔ 19ویں صدی کے تاریخ دان بھیرو مل مہرچند آڈوانی اپنی کتاب ’سندھی بولی جی تاریخ‘ میں لکھتے ہیں کہ اڈیرو لال 1007 میں سندھی کلینڈر کے مطابق نصرپور میں رتن رائی چند لوہانہ کے گھر میں ’چیٹی چنڈ’ کے ماہ میں پیدا ہوئے۔ ’چیٹی چنڈ‘ سندھی کیلینڈر کا مہینہ ہے، جسے سندھی کا نیا سال بھی کہا جاتا ہے۔ چیٹی چنڈ کی ابتدا مارچ اور اپریل کے درمیان ہوتی ہے اور اس ماہ میں سندھ کے لوگ اڈیرو لال کا میلہ اور ان کی سالگرہ بھی مناتے ہیں۔ آڈوانی اپنی ایک اور کتاب ’قدیم سندھ‘ جبکہ ’حیدرآباد جی تاریخ‘ کے مصنف حسین بادشاہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ٹنڈو آدم کسی زمانے میں نصرپور کا حصہ تھا، یہ مغل سلطنت کے دور میں انتظامی ضلع رہا جبکہ دریائے سندھ اس وقت مٹیاری سے گزرتا تھا۔ مٹیاری بھی نصرپور کا حصہ تھا۔ جب دریا نے اپنا رُخ تبدیل کیا تو ٹنڈو آدم کا جغرافیہ بھی تبدیل ہو گیا۔ لیکن اڈیرو لال سے ایک اور دلچسپ کہانی بھی جڑی ہے، جس کے مطابق ٹھٹھہ میں ایک ظالم حکمران مرکھ شاہ تھا، جو 10ویں صدی میں لوگوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر معمور تھا۔ مظالم سے تنگ آ کر ہندوؤں نے دریائے سندھ کے کنارے مذببی رسومات ادا کر کے عبادتیں شروع کر دیں اور خدا کو مدد کے لیے پکارا۔یہ بھی پڑھیےگاؤں جو پاکستان کا ’ویٹیکن سٹی‘ کہلاتا ہےبلھا! کی جاناں میں کون؟ ایک قبر مگر دعویدار تین مذاہبسات بہنوں کی درگاہ جہاں آج بھی خواتین منتیں لے کر آتی ہیں40 روز بعد ایک نوجون گھڑ سوار نمودار ہوا اور اس نے مرکھ شاہ سے کہا کہ وہ معصوم لوگوں پر مظالم ڈھانا بند کرے۔ اس کے 40 برس بعد، آڈوانی کے مطابق ایک لڑکارتن چند بھائی بند کے گھر نصرپو میں پیدا ہوا، جس کا نام ’اڈیرو لال‘ رکھا گیا۔ اڈیرو لال نام کے بارے میں ایک خیال یہ ہے کہ یہ سنسکرت کے لفظ اڈو سے اخذ کیا گیا ہے، جس کے معنی ’پانی‘ ہے، بعد میں یہ لفظ تبدیل ہو کر ’اڈر‘ بن گیا جبکہ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ یہ لفط سندھی لفظ ’اڈر‘ ہے، جس کے معنی ’اڑنا‘ ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور قصہ جو اڈیرو لال سے منسوب کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اڈیرو لال کی والدہ نے انھیں اپنا دودھ پلانے سے قبل دریائے سندھ کے پانی کے چند قطرے منھ میں ڈالے تھے۔ اسی وجہ سے اڈیرو لال پانی وارو پیر، ’دریا جو اوتار‘ یا ’پلے وارو پیر‘ کہلاتے ہیں لیکن وہ عام طور پر جھولے لال کے نام سے مشہور ہیں۔آج بھی اڈیرو لال کو ہندو اور مسلمان بنا کسی تفریق کے اپنا ’مرشد‘ مانتے ہیں۔ ہر سال اپریل کے مہینے میں انڈیا اور دیگر ممالک میں بسنے والے ان کے عقیدت مند میلے میں آتے ہیں، جس کا تمام تر انتظام درگاہ کے منتظم ہندو اور مسلمان مل کر کرتے ہیں۔یہاں ہندو مسلم ہر قسم کی رسومات میں شریک ہوتے ہیں اور اڈیرو لال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ وہ درگاہ پر ’بھجن‘ اور ’پنجڑا‘ گاتے ہیں۔ ان تمام تر رسومات کی شروعات دیا جلا کر کی جاتی ہے، اس کے بعد عقیدت مند ایک بڑا سا تھال سجاتے ہیں، جس میں مٹھایاں، پھل اور گلاب رکھے جاتے ہیں، اس کے بعد دریائے سندھ کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔ان میں سے ایک رسم کو ’بہرانو‘ کہا جاتا ہے۔ جس میں پیتل کی ایک جھوٹی سی تھالی میں دیا جلایا جاتا ہے اور آٹے کے پیڑے، مصری کی ڈلیاں، اگر بتیاں اور مٹھایاں رکھی جاتی ہیں۔ اس موقع پر ڈانڈیا ڈانس بھی کیا جاتا ہے، جو اس رسم کا اہم ترین حصہ ہے۔ سفید، پیلے اور نیلے رنگ میں سجی ہوئی اس درگاہ میں پیلو کا ایک درخت آج بھی موجود ہے جس کے بارے میں اڈیرو کے عقیدت مندوں کا کہنا ہے کہ آج سے کئی سال قبل اس درخت سے شکر نکلتی تھی لیکن اس کہانی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ درخت آج بھی موجود ہے مگر شکر کھانے کو نہیں ملتی۔اڈیرو لال کے مزار والا کمرہ شیشے سے بنا ہوا ہے اور چھت میں بادگیر لگے ہوئے ہیں، جن میں سے ٹھنڈی ہوا کا آسانی سے گزر ہوتا ہے اور دیواروں میں دیا جلانے کی کافی جگہیں ہیں جہاں دیے جلتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اڈیرو لال کے استعمال کی اشیا بھی موجود ہیں جن میں ایک لکڑی کا جوتا بھی ہے، جسے ’چاکھڑی‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں چندے کے لیے ایک ڈبہ ہے، جس میں مندر اور مسجد دونوں کے لیے چندہ جمع کیا جاتا ہے۔ درگاہ متولی عبداللہ شیخ نے بتایا کہ ’دہائیوں سے ہم ہندوؤں کے ساتھ سکون سے رہ رہے ہیں۔ یہ درگاہ ہمیں امن اور رواداری کا درس دیتی ہے اور ہم اس کے ماننے والے ہیں۔‘’جب بھی یہاں میلہ لگتا ہے تو ہندو برادری مسجد اور درگاہ کے لیے بھی چندہ دیتی ہے۔ اسی طرح یہ ہمارے فرائض میں شامل ہے کہ ہم مندر کی دیکھ بھال کریں۔ یہاں کسی قسم کی تفریق نہیں کیونکہ یہ نہ صرف اڈیرو لال درگاہ کی تعیلمات ہیں بلکہ سندھ میں بسنے والے سبھی لوگ مذہبی روادرای کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔‘محقق و ادیب نور احمد جنجھی کا کہنا ہے کہ ’یہ درگاہ درحقیقت ایک خانقاہ ہے۔ جس کی تعمیر کا نمونہ مغلیہ طرز تعمیر سے ملتا جلتا ہے۔ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ کس سنہ میں تعمیر ہوئی۔ یہ ہندو مسلمانوں کا مشترکہ ورثہ ہے جس میں مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اس کی مزید تعمیر کروائی تھی۔‘’لہٰذا یہ ایک قلعہ نما عمارت بھی دکھائی دیتی ہے۔ یہ تعمیر کردہ عمارت ایک خانقاہ سے ایک ایسی مذہبی رواداری والی عمارت میں تبدیل ہو چکی ہے جس میں دونوں عقیدوں کے ماننے والے موجود ہیں۔ درگاہ سے قبل یہاں ایک چھوٹی سی عمارت تھی جسے شاہ جہاں بادشاہ نے مزید بڑھایا۔‘نور احمد جنجھی مزید کہتے ہیں ’سندھ میں ایسی جو بھی درگاہیں یا خانقاہیں ہیں، انھیں اتنا بہتر کیا جائے کہ امن پیدا ہو سکے کیونکہ یہاں مختلف عقائد کے اثرات رہے ہیں۔ یہ درگاہ بقائے باہمی کا اہم ترین مظہر ہے۔‘اڈیرو لال کے مزار پر آئے ایک عقیدت مند نے کہا کہ ’ہمارے لیے اڈیرو لال کسی مسیحا سے کم نہیں۔ جب بھی میری زندگی میں کوئی مشکل گھڑی آتی ہے تو میں یہاں آتا ہوں۔‘’اس بار ہم اپنے بیٹوں کی شادی کے لیے آئے ہیں تاکہ اڈیرو لال سے رحمتیں ہم پر برستی رہیں۔ یہ ہماری ایک رسم ہے جو ہمارے آباؤ اجداد سے چلی آ رہی ہے اور اب ہماری نئی نسل بھی اسی نقش قدم پر چل رہی ہے۔‘اڈیرو لال کے شیو مندر میں لوگ شادی سے قبل دولہا کو یہاں زیارت اور ماتھا ٹیکنے کی رسم ادا کرنے کے لیے لاتے ہیں۔ جہاں کافی موج مستی کی جاتی ہے اور دولہا کے کپڑے پھاڑے جاتے ہیں۔ یہ رسم خوشی کے اظہار کے لیے کی جاتی ہے۔مزید پڑھیےیہ بھی پڑھیے مسلمان نہیں سکھ ہیں اس درگاہ کے خادم سات بہنوں کی درگاہ جہاں آج بھی خواتین منتیں لے کر آتی ہیں’کیا پتہ تھا کہ زندگی کی آخری دھمال ہو گی‘اڈیرو لال جہاں لوگوں کے لیے روحانی سکون کا ایک مسکن ہے تو دوسری جانب یہاں آنے والے یہ شکایت بهی کرتے ہیں کہ انھیں یہاں حاضری دینے کے لیے کئی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ انڈیا سے آنے والوں کو ویزے میں کئی دشواریاں حائل ہیں۔ ننکانہ صاحب میں جس طرح سکھوں کے لیے سہولیات پیدا کی گئی ہیں اسی طرح اڈیرو لال کی زیارت کرنے والے اپنے لیے بھی ایسا ہی مطالبہ کرتے ہیں تاکہ اڈیرو لال کی درگاہ جو کہ سندھ میں مذہبی ہم آہنگی کا سب سے بڑا مظہر بنا ہوا ہے، اسے دیکھنے کے لیے دنیا کے تمام لوگوں کے لیے کوئی روکاٹ باقی نہ رہے۔

توشہ خانہ کیا ہے اور کون سے سابق حکمران تحائف کے معاملے پر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس میں الزامات ثابت ہونے پر سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔توشہ خانہ کیا ہے؟توشہ خانہ یا سٹیٹ ریپازیٹری کا نام تو آپ نے اس سارے معاملے کے دوران بار بار سنا ہو گا۔ یہ دراصل ایک ایسا سرکاری محکمہ ہے جہاں دوسری ریاستوں کے دوروں پر جانے والے حکمران یا دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو ملنے والے قیمتی تحائف جمع کیے جاتے ہیں۔کسی بھی غیر ملکی دورے کے دوران وزارتِ خارجہ کے اہلکار ان تحائف کا اندراج کرتے ہیں اور ملک واپسی پر ان کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے۔یہاں جمع ہونے والے تحائف یادگار کے طور پر رکھے جاتے ہیں یا کابینہ کی منظوری سے انھیں فروحت کر دیا جاتا ہے۔پاکستان کے قوانین کے مطابق اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔جن تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زائد ہوتی ہے، انھیں مقررہ قیمت کا 50 فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 2020 سے قبل یہ قیمت 20 فیصد تھی تاہم تحریک انصاف کے دور میں اسے 20 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا تھا۔ان تحائف میں عام طور پر مہنگی گھڑیاں، سونے اور ہیرے سے بنے زیوارت، مخلتف ڈیکوریشن پیسز، سوینیرز، ہیرے جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل ہیں۔ان تحائف کی نیلامی کا طریقۂ کار کیا ہے؟بی بی سی کے نامہ نگار اعظم خان کے مطابق حکمرانوں کی جانب سے توشہ خانہ میں جمع کروائے گئے تحائف حکومت کے بنائے ہوئے قواعد کے تحت ہی فروخت کیے جا سکتے ہیں۔اگر کوئی سربراہِ مملکت چاہے تو وہ ملنے والے کسی تحفے کو مخصوص رقم ادا کر کے اپنے پاس رکھ سکتا ہے مگر پاکستان اور انڈیا میں ایسے تحائف کی نیلامی بھی کی جاتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والا پیسہ ریاست کے خزانے میں جاتا ہے۔کابینہ ڈویژن کے حکام کے مطابق یہ نیلامی ہر سال ہونا ہوتی ہے لیکن سالانہ بنیادوں پر ایسا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ ایک برس کے دوران سربراہان مملکت اور وزرا کے دوروں میں اتنے تحائف نہیں ملتے کہ ہر برس نیلامی کا انعقاد کیا جا سکے۔سربراہان مملکت اور وزرا کو ملنے والے تحائف اور توشہ خانہ میں ان کے اندراج کے بعد سٹیٹ بینک سے باقاعدہ ان کی مارکیٹ قیمت کا تعین کروایا جاتا ہے اور نیلامی کی جاتی ہے۔حکام کے مطابق اگر سربراہان مملکت یا وزرا یہ تحائف نہیں رکھتے تو پھر ان تحائف کی فہرست تیار کر کے انھیں توشہ خانہ قوانین کے مطابق سرکاری ملازمین اور فوج کے افسران کو نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔نیلامی کی قیمت کا تعین دوبارہ ایف بی آر اور سٹیٹ بینک سے کروایا جاتا ہے اور ان میں سے چند اشیا کی قیمت کو مارکیٹ ویلیو سے کچھ کم رکھا جاتا ہے جبکہ چند ایسے تحائف جو کسی خاص سربراہ ملک کی جانب سے ملے ہو ان کی اہمیت اور اعزازی مالیت کے تحت ان کی قیمت مارکیٹ سے زیادہ رکھی جاتی ہے۔یہ بھی پڑھیےتوشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان پر الزامات ثابت، قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قراردوست ممالک کے تحائف کی تفصیلات ظاہر کرنے سے ’قومی مفاد‘ کیسے متاثر ہوتا ہے؟تحائف کی نیلامی سے ’کیا مہنگائی کنٹرول ہو جائے گی؟‘ توشہ خانہ کیس میں نواز شریف کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاریتوشہ خانہ قوانین کے مطابق ان تحائف پر پہلا حق اس کا ہے جس کو یہ تحفہ ملا ہوتا ہے، اگر وہ اسے نہیں لیتے تو پھر سرکاری ملازمین اور فوج کے اہلکاروں کے لیے نیلامی کی جاتی ہے۔ اگر اس نیلامی سے جو اشیا بچ جائیں تو انھیں عام عوام کے لیے نیلامی میں رکھ دیا جاتا ہے۔جو بھی فوجی یا سرکاری ملازم ان قیمتی اشیا کو خریدتے ہیں انھیں اپنی ذرائع آمدن ڈیکلیر کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر لاگو ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔توشہ خانے سے تحائف لینے پر کون سے سابق حکمران مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔۔؟  پاکستان کے تین سابق حکمرانوں کو اس وقت توشہ خانے سے غیر قانونی طور پر تحائف حاصل کرنے پر مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ان میں سابق وزرائے اعظم نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری شامل ہیں۔توشہ خانہ سے قیمتی کاروں سے متعلق خلاف ضابطہ خریداری نیب کا وہ خاص ریفرنس بن گیا جس میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت پر ملی بھگت، گٹھ جوڑ اور پارٹنرشپ کے الزامات عائد کرتے ہوئے انھیں ایک ہی ریفرنس میں ملزم نامزد کر دیا ہے۔ نیب ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم تھے تو انھوں نے قوانین میں نرمی پیدا کر کے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو توشہ خانہ سے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے حکومتی توشہ خانہ سے تحفے میں ملنے والی گاڑیوں کی غیر قانونی طریقے سے خریداری کے مقدمے میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔نیب کے ریفرنس کے مطابق آصف زرداری نے بطور صدر متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو 750 'Li' 2005، لیکس جیپ 2007 اور لیبیا سے تحفے ملنے والی بی ایم ڈبلیو 760 Li 2008 توشہ خانہ سے خریدی ہیں۔نیب نے دعویٰ کیا ہے کہ آصف زرداری نے ان قیمتی گاڑیوں کی قیمت منی لانڈرنگ والے جعلی بینک اکاؤنٹس سے ادا کی ہے۔ ریفرنس میں ان بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں جن سے مبینہ طور پر آصف زرداری نے ادائیگیاں کی ہیں۔ریفرنس کے مطابق آصف زرداری یہ گاڑیاں توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے خود استعمال کر رہے ہیں، انھوں نے عوامی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔

Thursday, October 20, 2022

اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری

اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کر دیا۔الیکشن کمیشن کے مطابق اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات 24 دسمبر کو ہوں گے جس کے لیے امیدوار 7 سے 11 نومبر تک اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراسکیں گے۔ اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کے لیے 14 نومبر کو امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کی جائے گی۔

آصف علی زرداری کی بریت کے خلاف اپیلیں خارج

اسلام آباد : سابق صدر آصف علی زرداری کی بریت کے خلاف اپیلیں خارج کر دی گئیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق صدر آصف علی زرداری کی بریت کے خلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیلیں واپس لینے کی درخواست بھی منظور کر رہے ہیں اور نیب کی اپیلیں میرٹ پر خارج کر رہے ہیں کیونکہ نیب کی اپیلیں میرٹ پر بنتی ہی نہیں تھیں، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ نیب کے پاس میرٹ پر کوئی کیس نہیں ہے، نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم نے کیسز واپس لینے کی درخواست دائر کی ہے اور اپیل میرٹ پر نہیں بنتی اس لیے تو متعلقہ اتھارٹی نے اپیلیں واپس لینے کی منظوری دی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے کئی بار کہا کہ یہ اپیل میرٹ پر بھی نہیں بنتی، کیا نیب نے کوئی انکوائری کی کہ کیس کا ریکارڈ کہاں گیا-؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب کی اپیلیں واپس لینے کی درخواست بھی منظور کر رہے ہیں، نیب نے درخواست میں کہا تھا کہ اپیلوں کی مزید پراسیکیوشن ایک لاحاصل مشق ہو گی اور آصف زرداری کے خلاف دستاویزات کی فوٹو کاپیاں مشکل سے ریکارڈ پر ہیں، دستیاب دستاویزی شواہد قانون شہادت کے مطابق نہیں، یاد رہے کہ آصف زرداری اُرسس ٹریکٹر، پولو گراؤنڈ اور ایس ایس جی کو ٹیکنا میں بری ہوئے تھے جبکہ نیب نے آصف زرداری کی بریت کو 2015 سے چیلنج کر رکھا تھا،

Wednesday, October 19, 2022

بے نظیر بھٹو کی حفاظت کیلئے جانوں کی قربانیاں دینے والے 177 شہدا یاد ہیں، آصفہ بھٹو

کراچی: چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی ہمشیرہ آصفہ بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہمیں آج بھی وہ 177 شہدا یاد ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر ان کی حفاظت کی تھی۔سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کی صاحبزادی آصفہ بھٹو نے یہ بات یوم شہدائے کار ساز کے موقع پر یادگار شہدا پہ پھول چڑھانے اور فاتحہ خوانی کرنے کے بعد موجود ذرائع ابلاغ سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے کہی۔اس موقع پر پی پی سندھ کے سیکریڑی جنرل وقار مہدی سمیت پارٹی رہنماؤں و کارکنان اور شہدا کے لواحقین کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔آصفہ بھٹو زرداری نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ ہم شہدائے کارساز کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ہمیشہ انہیں یاد رکھیں گے۔

عمران خان کیخلاف توہین عدالت کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

سپریم کورٹ میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کر لی گئی۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ 20 اکتوبر کو سماعت کرے گا۔

اسلام آباد سمیت ملک کے بعض علاقوں میں بارش کا امکان

موسم کا حال بتانے والوں کے مطابق کل ملک کے کئی مقامات پر بارش اور پہاڑوں پر برف باری کا امکان ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق کل سےکشمیر، گلگت بلتستان ، بالائی خیبر پختونخوا، اسلا م آباد اور بالائی پنجاب میں آندھی، تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ بارش جبکہ بلند پہاڑوں پر برفباری کا امکان ہے۔گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم خشک رہا تاہم بالا کوٹ اور راولا کوٹ میں گرج چمک کے ساتھ بارش ہوئی۔سب سے زیادہ بارش خیبر پختونخوا میں بالا کوٹ 01، کشمیر میں راو لا کوٹ میں02 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی۔

پاکستان جلد وسط ایشیائی ریاستوں کا سربراہی اجلاس منعقد کرے گا، وزیر اعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان جلد وسط ایشیائی ریاستوں کا سربراہی اجلاس منعقد کرے گا۔ اعلامیے کے مطابق انہوں نے یہ بات اپنی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران کی، اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ کو قازقستان کے دورے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایشیائی ریاستوں کے سربراہانِ مملکت سے تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں، زرعی اجناس، گیس، ریلوے، روڈ، انفراسٹرکچر اور توانائی راہداریوں پر گفتگو کی، پاکستان جلد اسلام آباد میں وسط ایشیائی ریاستوں کا سربراہی اجلاس منعقد کرے گا۔ اعلامیے کے مطابق وزیراعظم کی قائم کردہ کمیٹیوں کی سفارشات کی روشنی میں ان روابط کا ایک جامع لائحہ عمل بھی پیش کیا جائے گا۔

Tuesday, October 11, 2022

بچہ باپ کا انتظار کرتا رہ گیا ۔۔ پولیس اور ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ایک اور بہادر اہلکار نے قربانی دے دی

بچہ باپ کا انتظار کرتا رہ گیا، پولیس اور ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ایک اور بہادر پولیس اہلکار نے قربانی دے دی،

شہید کا مرتبہ کسی بھی بڑے اعزازی مرتبے سے اونچا ہے، پاکستان کا ہر فوجی اپنے ملک کی خاطر جان قربان کرنے کا جذبہ لیے سوتا اور جاگتا ہے اور ہر ممکنہ کوشش کرتا ہے کہ ملک کو کالی بھییڑوں سے بچا کر محفوظ رکھے، پاکپتن میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان آپس میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کی وجہ سے 1 پولیس اہلکار شہید جبکہ 4 ڈاکو مارے گئے، تفصیلات کے مطابق پاکپتن پولیس کے سب انسپکٹر سرور اکرم ڈاکوؤں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئے ہیں، شہید سرور اکرم نے 2015 میں پولیس سروس جوائن کی تھی وہ ایک کمسن بیٹے کے والد بھی تھے۔ ڈاکوؤں سے مقابلے کے دوران پنجاب پولیس اہلکاروں نے بھرپور کارروائی کی، اس دوران کچھ ڈاکو بھاگ نکلے ہیں جن کو پکڑنے کے لئے سرچ آپریشن بھی کیا جا رہا ہے، شہید سرور اپنے 5 سالہ بیٹے کو گھر سے یہ کہہ کر نکلے تھے بیٹا تم گھر کا خیال رکھنا میں واپس آؤں گا تو تمہیں شکار کرنا سکھاؤں گا، کم سن بچہ اپنے والد کی راہ تکتا رہا لیکن اس کا یہ انتظار اب صرف انتظار ہی رہ گیا،

Monday, October 10, 2022

دفعہ 144 کیخلاف درخواست سنیں یا نہیں؟ فیصلہ محفوظ


اسلام آباد ہائیکورٹ نے دفعہ 144 قانون کے خلافا درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں دفعہ 144 کے قانون کے خلاف اسد عمر کی درخواست پر سماعت ہوئی، درخواست گزار اسد عمر کے جانب سے بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ اس جماعت کی دو صوبوں میں حکومت ہے، کیا ادھر کبھی دفعہ 144 نافذ نہیں کی گئی۔۔؟ لا اینڈ آرڈر کا معاملہ ایگزیکٹو نے دیکھنا ہے جس میں عدالت کبھی مداخلت نہیں کرے گی، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ کیا پی ٹی آئی کی دو صوبوں میں حکومت نہیں جہاں دفعہ 144 کا اطلاق ہوتا ہے۔۔۔؟ جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی کیا اسلام آباد میں دفعہ 144 کا نفاذ نہیں رہا ؟ انہوں نے کہا ہے کہ پہلے پنجاب اور خیبرپختونخوا جا کر یہ قانون اسمبلی سے ختم کرائیں، صوبائی اسمبلیوں سے قانون ختم کرا کے یہاں آ جائیں، وکیل درخواست  گزار نے کہا دفعہ 144 کا نفاذ پرامن احتجاج روکنے کے لیے غیرآئینی قانون ہے، پٹیشنر اس عدالت کے دائرہ اختیار میں رہنے والا شہری ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ابتدائی دلائل سننے کے بعد دفعہ 144 قانون کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا،

Sunday, October 09, 2022

ملک بھر میں عید میلاد النبیؐ مذہبی عقیدت و احترام سے منائی جارہی ہے



عید میلاد النبیؐ آج مذہبی عقیدت و احترام سے منائی جارہی ہے، ملک بھر میں گلیاں بازار سج گئے کہیں موٹرسائیکل اور کار ریلی نکالی گئی تو کہیں کشتیوں اور اونٹوں کی ریلیوں سے اظہار عقیدت کیا گیا، عید میلاد النبی پر اسلام آباد ،لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور ملتان سمیت شہر کے چھوٹے بڑے شہروں میں جشن کا سماں ہے، شہروں میں گلیاں اور بازار بھی سج گئے، شہریوں نے گھروں میں سجاوٹ کر کے حضور پاک سے محبت کا اظہار کر رہے ہیں، 12ربیع الاول کے موقع پر اسلام آباد اور لاہور میں دن کا آغٓاز اکیس اکیس توپوں کی سلامی سے ہوا، پاک آرمی کے دستے نے فلک شگاف نعرے بلند کئے، مساجد ، سرکاری عمارتوں، مارکیٹوں اور اہم عمارتوں کو برقی قمقموں سے سجایا گیا ہے جبکہ خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ کے ماڈل بھی تیار کئے گئے ہیں، ملک بھر میں جلوس اور نعتیہ محافل کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے، بلوچستان کے ماہی گیروں نے ڈام کے کھلے سمندر میں کشتی ریلی کا انعقاد کیا، عاشقان رسولؐ نے یارسول اللہ کے نعرے لگائے، حیدرآباد میں اونٹ گاڑی پر بچوں کے جلوس نے سب کی توجہ حاصل کرلی، راولاکوٹ میں موٹرسائیکل اور کار ریلی نکالی گئی، شہر کی فضاء درود پاک کی صداؤں سے معطر ہوگئی، کراچی، لاہور سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں موبائل فون سروس جزوی طور پر بند ہے، حکام نے عید میلاد النبی کی مناسبت سے فون سروس بن درکھنے کا فیصلہ کیا، کراچی میں آج گرین لائن اور اورنج لائن بس سروس بھی معطل رہے گی، 

Saturday, October 08, 2022

ضمنی انتخابات 90 روز کیلئے ملتوی کیے جائیں، وزارت داخلہ کا الیکشن کمیشن کو خط

وزارت داخلہ نے الیکشن کمیشن سے ضمنی انتخابات نوے روز کیلئے ملتوی کرنے کی درخواست کردی۔اس ضمن میں وزارت داخلہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی ادارے سیلاب متاثرہ علاقوں میں مصروف ہیں،مرکز اور صوبے بھی مصروف عمل ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض اور دیگر مسائل درپیش ہیں،سیاسی جماعت 12 سے 17 اکتوبر کے درمیان اسلام آباد پر قبضے کی کوشش کرنا چاہتی ہے، اسلام آباد کے تحفظ کیلئے زیادہ سے زیادہ نفری لگانا مجبوری ہوگی۔وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ الیکشن کیلئے مطلوبہ سیکیورٹی فراہم کرنا ممکن نہیں ہوگا لہذا الیکشن کمیشن اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ضمنی انتخابات ملتوی کر دے۔خط میں موقف اپنایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن سیلاب کی وجہ سےپہلےبھی بلدیاتی اورضمنی انتخابات ملتوی کرچکا ہے۔

ضمنی انتخابات 90 روز کیلئے ملتوی کیے جائیں، وزارت داخلہ کا الیکشن کمیشن کو خط

ضمنی انتخابات 90 روز کیلئے ملتوی کیے جائیں، وزارت داخلہ کا الیکشن کمیشن کو خط



وزارت داخلہ نے الیکشن کمیشن سے ضمنی انتخابات نوے روز کیلئے ملتوی کرنے کی درخواست کردی۔اس ضمن میں وزارت داخلہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی ادارے سیلاب متاثرہ علاقوں میں مصروف ہیں،مرکز اور صوبے بھی مصروف عمل ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض اور دیگر مسائل درپیش ہیں،سیاسی جماعت 12 سے 17 اکتوبر کے درمیان اسلام آباد پر قبضے کی کوشش کرنا چاہتی ہے، اسلام آباد کے تحفظ کیلئے زیادہ سے زیادہ نفری لگانا مجبوری ہوگی۔وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ الیکشن کیلئے مطلوبہ سیکیورٹی فراہم کرنا ممکن نہیں ہوگا لہذا الیکشن کمیشن اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ضمنی انتخابات ملتوی کر دے۔خط میں موقف اپنایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن سیلاب کی وجہ سےپہلےبھی بلدیاتی اورضمنی انتخابات ملتوی کرچکا ہے۔

Thursday, October 06, 2022

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: پی ٹی آئی ارکان کا اپنے ہی صدر کے خطاب کا بائیکاٹ

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: پی ٹی آئی ارکان کا اپنے ہی صدر کے خطاب کا بائیکاٹ

اسلام آباد: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر ملکت عارف علوی کے خطاب کے موقع پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی غیر اعلانیہ بائیکاٹ کردیا، صدر مملکت عارف علوی کے خطاب کے دوران ایوان تقریباً خالی رہا اور 442 ارکان کے ایوان میں صرف 14 اراکین اسمبلی موجود تھے جو کہ صدر کے خطاب سے عدم دلچسپی ظاہر کرتے رہے، اسپیکر کی جانب سے اراکین کو نشستوں پر جانے کی ہدایت بھی کی جاتی رہی، صدر مملکت نے اراکین کی عدم توجہ کے باوجود اپنا خطاب جاری رکھا، اس دوران ایوان میں پی ٹی آئی کا کوئی بھی ایم این اے یا سینیٹر موجود نہیں تھا تاہم پی ٹی آئی کے چند منحرف اراکین ایوان میں موجود تھے، ارکان پارلیمنٹ تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ موجودہ اسمبلی کو نہیں مانتے اس لیے بائیکاٹ کیا، مشترکہ اجلاس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی کر رہے ہیں، انہیں بھی نہیں مانتے، مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے بھی صدر مملکت کے خطاب کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ کیا،

Sunday, October 02, 2022

سیلاب کے باعث ایک ماہ سے بند ٹرین سروس بحال

سیلاب کے باعث ایک ماہ سے بند رہنے والی ٹرین سروس بحال کر دی گئی۔کراچی سے لاہور مسافر ٹرینیں آج سے چلیں گی ترجمان ریلوے کے مطابق، پشاور سے کراچی تک پورا آپریشن بحال ہوگا، کراچی سے کچھ دیر بعد رحمان بابا ایکسپریس اور لاہور سے خیبر  میل چلے گی، ریلوے حکام کی جانب سے کراچی تک کا کرایہ بھی بڑھا دیا گیا ہے، اکانومی کلاس کا 1800 روپے میں ملنے والا ٹکٹ اب 2400 روپے میں ملے گا،

Saturday, September 24, 2022

ناظم جوکھیو قتل کیس: فریقین کے درمیان صلح ہوگئی

ناظم جوکھیو قتل کیس میں فریقین کےدرمیان صلح ہوگئی،

ناظم جوکھیو کے ورثا کی جانب سے سیشن کورٹ ملیر میں حلف نامہ جمع کروادیا گیا، حلف نامہ ناظم جوکھیو کی والدہ ،اہلیہ اور بچوں کی جانب سے جمع کرایا گیا، حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ ملزمان کے ساتھ صلح ہوچکی ہے کیس ختم کرنے پر کوئی اعتراض نہیں، عدالت نے قانونی ورثا سے متعلق اخبار میں اشتہار شائع کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے نادرا سے بھی آئندہ سماعت تک رپورٹ طلب کرلی، سیشن کورٹ ملیر نے کیس کی سماعت 15 اکتوبر تک ملتوی کردی، ناظم جوکھیو قتل کیس میں پیپلز  پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی جام اویس سمیت 6 ملزمان گرفتار ہیں اور ملزمان پر آج فرد جرم عائد ہونی تھی، یاد رہے کہ 27 سالہ ناظم جوکھیو کو 3 نومبر 2021 کو کراچی کے ضلع ملیر میں جام اویس کے فارم ہاؤس میں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد  قتل کیا گیا تھا،

Wednesday, September 21, 2022

Dharti Tv News Live Streaming

Dharti Tv News Live Streaming (Click here)

عقاب جیسی نظر اور چیتے جیسی پھرتی رکھنے والے پاک فوج کے ایسے کمانڈوز جنہوں نے قوم کا سر فخر سے بلند کردیا

عقاب جیسی نظر اور چیتے جیسی پھرتی رکھنے والے پاک فوج کے ایسے کمانڈوز جنہوں نے قوم کا سر فخر سے بلند کردیا



پاکستان قوم اس حوالے سے ایک خوش قسمت قوم ہے جس کو اللہ نے ایسی افواج سے نوازہ ہے جن کا جگر شیر کا اور نظر عقاب جیسی ہے- ہمارے شیر دل جوان ملک کی سرحدوں پر بہادری سے اپنے ملک کے دفاع کے لیے صبح شام اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور ان کے پیش نظر صرف اور صرف شہادت کی مسند ہوتی ہے ۔ پاک آرمی کے اندر سب سے اہم شعبہ اس کے کمانڈوز کا ہوتا ہے جن کا انتخاب بہت مشکل سے کیا جاتا ہے ۔ یہ وہ بہادر اور قابل ترین لوگ ہوتے ہیں جن کو سخت ترین جانچ کے بعد منتخب کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک بھر میں صرف 700 کمانڈوز موجود ہیں جو کہ سخت ترین تربیت کے بعد اس گروپ کا حصہ بننے میں کامیاب ہو سکے-
 
پاکستانی فوج کے کمانڈوز کی اہم خصوصیات
پاکستانی کمانڈوز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پوری دنیا کے نمبر ون کمانڈوز قرار دیے جاتے ہیں -


1: 75 گھنٹوں تک بھوکے پیاسے رہ سکتے ہیں
پاکستانی کمانڈوز کی سب سے بڑی خصوصیت جو کہ دنیا کے دوسرے ممالک کے کمانڈوز کو حاصل نہیں ہے وہ یہ ہے کہ یہ اتنے سخت جان ہوتے ہیں کہ 75 گھنٹوں تک بھوکے اور پیاسے رہ سکتے ہیں اور اس دوران بھی ان کی کارکردگی میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہو گی-


2: 28 ہزار فٹ کی بلندی سے فری فال
سخت ترین تربیت کے بعد ایک اور اہم خصوصیت جو پاکستانی کمانڈوز کو دنیا کے دوسرے تمام کمانڈوز سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کمانڈوز 28 ہزار فٹ کی بلندی سے بھی پیرا شوٹ لگا کر فری فال کر کے اپنے ٹارگٹ پر پہنچ سکتے ہیں-

پاکستان کے نمایاں کمانڈوز
 
1: کیپٹن روح اللہ شہید
کیپٹن روح اللہ ماں کا ایسا بیٹا جس کی پیدائش پر صرف اس کی ماں کے ساتھ ساتھ ملک کی تمام ماؤں کا سر فخر سے بلند ہو گیا- شبقدر کے علاقے میں پیدا ہونے والے اس جری کے والد اس کو ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگر روح اللہ کو اللہ نے جس روح سے نوازہ تھا وہ مسیحا بن کر زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ملک کے دشمنوں کے ناپاک ارادوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کے لیے بنی تھی- اس وجہ سے اس نے 2009 میں فوج میں شمولیت اختیار کر لی اوراپنی بہترین صلاحیتوں کے سبب کمانڈوز کے عہدے پر فائز ہو گیا- جب کوئی اپنے من پسند شعبے کا انتخاب کر لیتا ہے تو پھر اس کو آگے جانے سے کوئی نہیں روک سکتا، یہی معاملہ روح اللہ کے ساتھ بھی تھا ۔وہ چاہے آرمی پبلک کا محاذ ہو یا باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کا بچھایا ہوا جال، یا پھر کرسچن کالونی کے بے گناہوں کو بچانے کا معاملہ وہ ہر جگہ فوج کے ہر اول دستے کے ساتھ موجود رہا۔ وہ مجاہد ہر جنگ کا غازی رہا- 28 ستمبر کو جب اس کی پوسٹنگ بلوچستان میں ہوئی تو اس نے اپنے گھر والوں کو یقین دلایا کہ دسمبر تک وہ چھٹیاں لے کر آجائے گا تاکہ اس کے سہرے کے پھول کھلائے جا سکیں ۔مگر کسے معلوم تھا کہ اس کے سہرے کے پھول اس دنیا کی مٹی میں نہیں کھلنے، وہ تو جنت کو مہکانے کے لئے کھلنے تھے۔ کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر پر دہشت گردوں کے حملے کی خبر جب روح اللہ کو پہنچی تو وہ وقت ضائع کیے بغیر بہادری سے دہشت گردوں کے مقابلے کے لیے بڑھے اور ان کو جہنم واصل کرنے لگے مگر ایک بزدل کے وار نے انہیں شدید زخمی کر دیا اور وہ زخموں کی تاب نہ لا کر شہادت کی مسند پر براجمان ہو گئے- انہیں فوج کی جانب سے ان کی خدمات کےعوض ستارہ جرات سے نوازہ گیا

2: لیفٹنٹ کرنل عامر وحید شہید
انہوں نے 21 سال کی عمر میں فوج میں کمیشن حاصل کیا اور اپنی خدمات کے سبب بطور کمانڈوز منتخب ہو گئے- 1988 میں انہیں صدارتی گولڈ میڈل سے نوازہ گیا 1990 میں ان کی شمولیت پاک فوج کی گوریلا فورس میں ہو گئی- 2005 میں ان کی دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کاروائیوں کے بدلے میں فوج کی جانب سے ان کو ستارہ بسالت سے نوازہ گیا جو کہ کسی بھی حاضر فوجی کا ایک خواب ہوتا ہے وہ 24 ہزار فٹ کی بلندی سے فری فال کر سکتے تھے- 2006 میں بلو چستان کے علاقے کوہلو میں دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے-

3: میجر جنرل طاہر مسعود
میجر جنرل صاہر مسعود اس وقت پاکستانی کمانڈوز کی پیرا ٹروپر گروپس کی قیادت کرتے ہیں اور 10 ہزار فٹ کی بلندی سے فری فال کرتے ہیں 23 مارچ کی تقریب میں انہوں نے اپنے گروپ کے ہمراہ 12 ہزار فٹ کی بلندی سے فری فال کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا-

4: کیپٹن عابد
پاکستان کے اس جری کمانڈو کا تعلق خیبر پختونخواہ سے ہے 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے کا مقابلہ کرنے والی کمانڈوز فورس کو لیڈ کرنے والے کیپٹن عابد نے اپنی بہادری اور بہترین حکمت عملی سے نہ صرف بزدل دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچایا بلکہ اپنی بروقت کاروائی اور حکمت عملی سے سیکڑوں بچوں کی جانیں بھی بچائيں یہ کمانڈو ہم سب کے لیے باعث فخر ہے -

حضرت سید عبداللہ شاہ غازیؒ کی زندگی اور شہادت سے جڑے حیران کن واقعات

حضرت سید عبداللہ شاہ غازی ؒ کو والی کراچی بھی کہا جاتا ہے۔ ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ ان کی کرامات کی وجہ سے کراچی سمندری طوفانوں سے بچا ہوا ہے۔ صوفیاء کرام، اولیاء اور بزرگان دین اللہ کی طرف سے محبت کے زریعے انبیاء کرام کے کام کو تکمیل دیتے ہیں اور یہ مختلف علاقوں میں اللہ کی طرف سے معمور کئے جاتے ہیں۔ حضرت سید عبداللہ شاہ غازی کی تاریخ انتہائی دلچسپ ہے آئیے جانتے ہیں۔
 
آپ ؒ نے سندھ میں جب اپنے قدم رکھے تو ایک پہاڑ جس پر آپ کا مزار ہے وہ سمندر کے پانی میں گھرا ہوا تھا۔ پیدل چل کر پہاڑ پر جانا مشکل تھا وہ آپ کے چلے کی جگہ تھی۔ کہا جاتا ہے اور عام مشہور بھی ہے کہ آپؒ نے سمندر کو حکم دیا پیچھے ہٹ جاؤ سمندر پیچھے ہٹ گیا۔ یوں سمندر نے زمین چھوڑ دی یعنی سمندر پر بھی ان کی حکمرانی تھی۔ کراچی والوں کا خیال ہے کہ ان ہی کی دعاؤں سے کراچی سمندری آفات سے بچا ہوا ہے یہ شاید اس شہر کی خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں یہاں بسایا۔
 
حضرت سید عبداللہ شاہ غازیؒ کی ولادت با سعادت اٹھانویں ہجری مدینہ طیبہ میں ہوئی۔ آپؒ نسبتاً سید سادات ہیں آپ کے پر دادا حضرت سید حسن مثنیٰ بن امام حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ اس طرح آپ حسنی حسینی کہے جاتے ہیں۔ آپؒ کا لقب "الاشتر "تھا یعنی اونٹ چلانے کا ماہر۔ آپؒ کا شجرہ مزار پر نسب ہے۔ آپ ؒ کی زندگی جہاد فی سبیل اللہ میں گزری۔ مجاہد ہونے کے سبب آپ کو غازی کا لقب ملا۔ آپؒ نے اپنی ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد اور اس وقت کے مشہور محدث حضرت محمود زکیاء ؒسے لی۔
 

 
آپ ؒ 138 ہجری میں سندھ تشریف لائے۔ سندھ میں بے شمار صوفیاء کرام دعوت تبلیغ کے لئے آئے۔ آپ خلیفہ منصور عباسی کےعہد حکومت میں سندھ آئے۔ آپ کے وقت عباسیوں اور علویوں کے مابین خلافت کی کشمکش جاری تھی۔ اس وقت آپ گھوڑوں کے تاجر کے طور پر سندھ میں داخل ہوئے تھے، خلافت کی وجہ سے سادات کو نشانہ بنایا جا رہا تھا اس لئے آپؒ نے دین کی تبلیغ کے لئے یہ راستہ اپنایا تاکہ حکمرانوں کی مخالفت سے بچے رہیں اور دین کا کام بھی جاری رکھیں۔ لوگ جوق در جوق آپ کی دعوت تبلیغ میں داخل ہونے لگے۔
 
اولیاء اور صوفیا کرام کا پیغام تو محبت ہوتا ہے انھیں اقتدار سے کیا لینا دینا۔ اس وقت کے سندھ کے گورنرعمر بن حفس کو ان کے خلاف بھڑکانے کی بہت کوشش کی گئی یہاں تک کہ جب بغداد میں آپ ؒ کے والد عباسی حکومت کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئے تو وہاں سے گورنر سندھ کو آپؒ کو جلد ازجلد گرفتار کر کے خلیفہ منصور کے دربار میں حاضر کرنے کا حکم جاری کیا گیا لیکن گورنر سندھ جو خود آپؒ کے اسیر تھے انھوں نے آپؒ کو سندھ کی ساحلی پٹی پر واقع ریاست بھیجنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہاں کا راجہ اسلامی حکومت کا اطاعت گزار تھا تاکہ آپؒ کی باحفاظت اپنا کام جاری رکھیں۔
 

 
راجا نے آپؒ کی انتہائی تعظیم کی اور اس طرح تبلیغ جاری رہی۔ گورنر حفس کو اس حرکت کی بناء پر معزول کر دیا گیا اور نئے گورنر حشام بن عمر کو نیا گورنر بنایا گیا لیکن وہ بھی سادات کی تعظیم کرنے والا تھا۔ اسی دوران سندھ کے ایک علاقے میں حکومت کے خلاف بغاوت ہو گئی۔ گورنر نے اس بغاوت سے نمٹنے کے لئے اپنے بھائی سفیر بن عمر کو بھیجا۔ ساحلی علاقے میں حکومتی لشکر نے آپؒ کے لشکر کو باغیوں کا لشکر سمجھ کر حملہ کر دیا آپؒ جنگ نہیں چاہتے تھے لیکن اسی لڑائی میں آپؒ کو شہید کر دیا گیا۔اس حوالے سے جو ایک روایت عام ہے وہ یہ کہ شہادت کے بعد آپؒ کے مرید آپؒ کا جسد خاکی لے کر اسی علاقے میں روپوش ہو گئے یہاں پینے کا پانی میسر نہیں تھا ایک دن آپؒ اپنے ایک مرید کے خواب میں آئے اور چشمے کی بشارت دی یہ وہ ہی چشمہ ہے جو آج بھی مزار کے نیچے جاری و ساری ہے، سمندر کے دامن میں میٹھے پانی کا چشمہ ایک معجزہ ہی ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے چنے ہوئے بزرگوں کو نوازتا ہے۔ آپؒ کی شہادت ایک سو اکاون ہجری میں ہوئی۔ آج بھی آپؒ کے عقیدت مندوں کا آپؒ کے مزار پر تانتا بندھا ہوا ہوتا ہے۔ یہ مزار کراچی کے لینڈ مارک کی حیثیت رکھتا ہے۔

Monday, September 19, 2022

سندھ میں آٹا 200 روپے فی کلو ہونے کا اندیشہ، تاجروں نے خبردار کردیا

سندھ حکومت کی جانب سے فی کلو گندم کی سپورٹ پرائس میں اچانک 45 روپے اضافے کے باعث آٹے کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہو گیا ہے، حکومت سندھ کی جانب سے گندم کی سپورٹ پرائس میں یکدم 45 روپے فی کلو اضافہ کردیا گیا، جس کے بعد صوبے میں آٹے کی قیمت میں بھی ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے، اس حوالے سے چیئرمین ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن عبدالروف ابراہیم کا کہنا تھا کہ قبل از وقت سپورٹ پرائس مقرر کرکے مڈل مین کو فائدہ دیا گیا ہے، رؤف ابراہیم کے مطابق گندم کی سپورٹ پرائس بڑھنے سے اندرون سندھ گندم کی ذخیرہ اندوزی ہوئی، حکومت سے درخواست ہے کہ آٹے کی قیمت کم کرنے کیلئے 24 گھنٹے میں گندم کا کوٹہ ریلیز کیا جائے، چیئرمین ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن نے کہا عندیہ دیا کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو آٹا 200 روپے کلو ہوسکتا ہے

Sunday, September 18, 2022

سیلاب کے بعد بیماریوں اور اموات کی صورت میں دوسری آفت کا خطرہ

ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ سیلاب کے بعد پاکستان کو بیماریوں اور اموات کی صورت میں دوسری آفت کا خطرہ ہے۔سربراہ عالمی ادارہ صحت ٹیڈروس نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لاکھوں افراد کی زندگیاں اس وقت خطرے میں ہیں۔سیلاب کے بعد پاکستان کو بیماریوں اور اموات کی صورت میں دوسری آفت کا خطرہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے پاکستان میں صحت کے نظام کو شدید متاثر کیا ہے۔ صحت کے مراکز سیلاب میں ڈوب گئے ہیں ۔سربراہ عالمی ادرہ صحت نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں لوگ غیر محفوظ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ جس سے ہیضہ اور دیگر بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔یہ بھی پڑھیں:ان کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت پاکستان کیلئے امداد کی نئی اپیل جاری کرے گا۔ ٹیدروس نے دنیا بھر کےعطیات دینے والوں سے زندگیاں بچانے کے لیے دل کھول کر امداد کی گزارش کی ہے،

Thursday, June 16, 2022

آلودگی نے ہر انسان کی زندگی کے دو سال کم کر دیے: تحقیق

آلودگی نے ہر انسان کی زندگی کے دو سال کم کر دیے: تحقیق

بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی نے عالمی سطح پر ہر انسان کی اوسط عمر اور زندگی کی متوقع مدت دو سال کم کر دی ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ آلودگی کے باعث بننے والی یہ صورت حال ایڈز، سگریٹ نوشی یا دہشت گردی کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہے۔امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ( ای پی آئی سی) کی منگل کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا کی 97 فیصد آبادی ان علاقوں میں رہائش پذیر ہے جہاں آلودگی کی سطح مقررہ معیار سے کہیں زیادہ ہے۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے رہائشیوں نے سموگ کی وجہ سے اپنی زندگی کے پانچ سال کھو دیے ہیں جبکہ انڈیا کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہاں 2013 کے بعد سے فضائی آلودگی 44 فیصد بڑھی ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔تحقیق کے مطابق اگر چین عالمی ادارہ صحت کے معیار تک پہنچ جاتا ہے تو وہاں کی اوسط عمر دو اعشاریہ چھ سال بڑھ سکتی ہے۔چین وہ ملک ہے جہاں 2013 سے متوقع اوسط میں عمر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ اس نے آلودگی کے خلاف جنگی بنیادوں پر کام شروع کیا تھا اور پی ایم دو اعشاریہ پانچ کو 40 فیصد تک کم کر دیا تھا۔تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی کو ایک اہم عوامی مسئلے کے طور پر نہیں دیکھا گیا اور ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے جبکہ اس سے نمٹنے کے لیے ابھی تک فنڈز بھی ناکافی ہیں۔2013 کے بعد سے سب سے زیادہ آلودگی انڈیا میں بڑھی ہے ای پی آئی سی نے آب و ہوا کے معیار کے حوالے سے نئی فہرست جاری کی ہے جس کے لیے سیٹیلائٹ ڈیٹا کو استعمال کیا گیا ہے جس سے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچانے والے اجزا (پی ایم 2.5) کے آب و ہوا میں تناسب کا اندازہ لگا گیا ہے۔ای پی آئی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر عالمی سطح پر پی ایم 2.5 کی سطح پانچ مائیکروگرام فی کیوبک میٹر تک نیچے آ جائے جو کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے منظورشدہ ہے، تو اوسط متوقع عمر میں دو اعشاریہ دو سال کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ای پی آئی سی کے ڈائریکٹر برائے ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کریسٹا ہیسنکوف کا کہنا ہے کہ ’اب آلودگی کے حوالے سے معلومات میں بہتری آئی ہے اور یہ حکومتوں کے لیے ایسا معاملہ ہے جس کو فوری طور پر ترجیح دینی چاہیے۔‘آلودگی کے حوالے سے کوئی ملک ڈبلیو ایچ او کے معیار تک نہیں پہنچا (فوٹو: اے ایف پی)ای پی آئی سی کے اعداد و شمار پچھلی تحقیقات پر مبنی تھے جن میں بتایا گیا تھا کہ پی ایم ٹو پوائنٹ فائیو میں مسلسل 10 مائیکروگرام فی کیوبیک میٹر کا اضافہ اوسط عمر کو ایک سال کم کر دے گا۔2021 میں فضائی آلودگی کے حوالے سے ہونے والے ایک سروے کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس وقت تک کوئی بھی ملک عالمی ادارہ صحت کے سٹینڈز تک نہیں پہنچا جو کہ پانچ مائیکروگرام ہے۔

حوصلہ افزا پروان

Friday, March 18, 2022

گورنر راج کیا ہے

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے سندھ میں گورنر راج کے بیان نے پھر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ملکی سیاسی تجزیئے جو پہلے تحریک عدم اعتماد اور اس کے بعد سندھ ہاؤس کے اردگرد گھوم رہے تھے اب گورنر راج کی بحث میں الجھ گئے ہیں۔ ایک طرف کچھ وفاقی وزرا سندھ میں گورنر راج لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب سندھ حکومت بھی اس طرح کے بیانات کے خلاف بھرپور جواب دے رہی ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی سندھ کے رہنما فردوس شمیم بھی صوبے میں گورنر راج کا مطالبہ کرچکے تھے۔ گورنر راج کے حق میں بولنے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 235 کے تحت سندھ میں ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ صوبے کی صورتِ حال تیزی سے خراب ہوری ہے، سندھ میں گورنر راج لگانے میں کوئی برائی نہیں۔ اس پر سندھ حکومت کا مؤقف ہے کہ گورنر راج کا شوشہ کئی بار چھوڑا گیا۔ آرٹیکل 235 میں نہیں بلکہ 234 میں ایمرجنسی کا ذکرہے۔گورنر راج میں کیا ہوتا ہے؟گورنر راج کے دوران صوبے میں تمام تراختیارات گورنر کے پاس آجاتے ہیں اور گورنر چونکہ وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے لہٰذا اس کے فیصلے وفاق کی مشاورت سے کئے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کا بڑا اختیار بھی گورنر کے پاس آجاتا ہے۔ اس کے علاوہ گورنر کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ وہ صوبے میں بگڑتی صورت حال پہ قابو پانے کیلئے فوج کو طلب کرلے جوکہ انتہائی بڑا اختیار ہے۔ عام حالات میں یہ اختیار صوبے کے وزیرِاعلیٰ اور صدرِمملکت کے پاس ہوتا ہے۔آئینِ پاکستان کے تحت کسی بھی صوبائی حکومت کی ناکامی پر قانون وفاق کی جانب سے صوبے میں گورنر راج لگایا جاسکتا ہے، جس کی مدت کم از کم چھ ماہ ہوتی ہے۔ ارکان، وزرا ، مشیران ،اسپیکر یہاں تک کہ صوبائی حکومت کا سب سے بڑا عہدہ یعنی وزیرِاعلیٰ بھی کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، جب کہ عام حالات کی بات کی جائے تو صوبائی گورنر کے پاس بہت زیادہ اختیارات نہیں ہوتے۔ ان کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ صوبے کی سلامتی کی دیکھ بھال کرے، صوبے کی روابط وفاق اور دیگر صوبوں سے مضبوط رکھے، جب کہ صوبے کے گورنر کی تقرری وزیرِاعظم کرتا ہے۔پاکستان میں ماضی میں کئی بار گورنر راج کی گونج سنائی دی گئی ہے۔ ایسے مواقع بھی آئے جب صوبائی گورنروں کو اضافی و مکمل اختیارات ملے اور اس صورت میں جب صوبائی اسمبلی تحلیل کر دی گئی ہو، تب انتظامی اختیارات براہ راست گورنر کے زیر نگیں آئے۔ سال 1958ء سے 1972ء تک اور سال 1977ء سے سال 1985ء کے مارشل لا کے دوران صوبوں میں گورنر راج نافذ رہا ۔ جب کہ 1999ء سے 2002ء کے گورنر راج کے دوران میں گورنروں کو اختیارات حاصل رہے۔سندھ میں کب کب گورنر راج لگاسندھ میں دو مرتبہ براہ راست گورنر راج نافذ رہا، اس دوران 1951ء سے 1953ء میں میاں امین الدین اور 1988ء میں رحیم الدین خان گورنر تھے۔ڈاکٹر عشرت العباد پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل مدت پوری کرنے والے گورنر ہیں جو 14 سال مسلسل گورنر کے عہدے پر برقرار رہے ۔ انہوں نے 3 حکومتیں دیکھیں، جب کہ عام طور پر گورنر کا دورِ حکومت 5 سال کا ہوتا ہے۔بلوچستان میں گورنر راجسال 2013 میں کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے موقع پر اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کرنا پڑا تھا۔ راجہ پرویز اشرف نے آئین کے آرٹیکل234 کے تحت کوئٹہ میں گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔آئین کے آرٹیکل234 کے تحت متعلقہ صوبہ کے گورنر کی رپورٹ پر اگر صدر مملکت کو یقین ہو جائے کہ صوبہ کی حکومت آئین اور قانون کے مطابق معاملات نہیں چلا سکتی تو وہ گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔صدر کے احکاماتگورنر راج نافذ کرنے کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہے کہ پارلیمینٹ کے دونوں ایوان اپنے الگ الگ اجلاسوں میں کسی صوبہ میں گورنر راج کے نفاذ کے لئے قراردادیں منظور کرلیں تو صدر مملکت ان پر عملدرآمد کرتے ہوئے گورنر راج کے نفاذ کا صدارتی فرمان جاری کرتے ہیں۔اٹھارویں ترمیماٹھارویں آئینی ترمیم سے قبل کسی صوبہ میں پارلیمینٹ کے ذریعے گورنر راج کے نفاذ کے لئے ضروری تھا کہ ایسی قرارداد قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی جائے تا ہم اب دونوں ایوانوں میں الگ الگ قرار دادیں منظور ہونا ضروری ہے۔

Featured Post

ایران کا صبح سویرے اسرائیل پر ایک اور بڑا حملہ، بلیسٹک، ہائپر سونک میزائلوں اور ڈرونز کا استعمال، 8 افراد زخمی، 200 سے زائد زخمی

ایران نے اسرائیلی لڑاکا طیاروں کو تیل فراہم کرنے والی تنصیبات کو نشانہ بنایا، حملے سے حیفہ میں ریفائنریز میں آگ لگ گئی وعدہ صادق سوم کے تحت...