Search This Blog
Friday, October 21, 2022
اڈیرو لال: سندھ کی وہ قدیم درگاہ جہاں مندر اور مسجد ساتھ ساتھ ہیں
سندھ جنوبی ایشیا کا ایک ایسا خطہ رہا ہے جس کا اہم ترین تعارف مذہبی رواداری ہے۔ اس کی مثالیں نہ صرف ہمیں مشترکہ ہندوستان کے زمانے میں ملتی ہیں بلکہ اب بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ سندھ میں صوفیا کرام کی درگاہیں ہر مذہب کے ماننے والے کا بانھیں کھولے استقبال کرتی نظر آتی ہیں۔ لال شہباز سے لے کر، بھٹ شاہ، سمن سرکار اور سادھو بیلو تک کئی ایسی درگاہیں ہیں جہاں لوگ عام دنوں میں تو جاتے ہی ہیں مگر عرس اور دیگر تقریبات میں دوسرے ممالک سے بھی لوگ یہاں آتے ہیں اور یہ شرکت بنا کسی مذہبی تفریق کے ہوتی ہے۔ لیکن سندھ میں ایک ایسی درگاہ آج بھی پوری دنیا کے انسانوں کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے، جس کی خاصیت سندھ میں دیگر درگاہوں سے کافی الگ تھلگ ہے۔یہ ’اڈیرو لال‘ کی درگاہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ حیدر آباد سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ٹنڈو آدم شہر سے قبل اڈیرو لال کا چھوٹا سا شہر آتا ہے، جہاں یہ درگاہ صدیوں سے قائم ہے۔ اڈیرو لال کو ’پانی کا پیر‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ مقامی روایات میں مشہور ہے کہ وہ ’پانی میں مچھلی پر بیٹھ کر سفر کیا کرتے تھے۔‘جس طرح ہر مقام سے جڑے چند قصے ہوتے ہیں اور تاریخ کے اوراق اُلٹ پلٹ کر حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے، اسی طرح جب اڈیرو لال کے حوالے سے جاننا چاہا تو ہمیں بھی بہت کچھ ملا۔ یہ ایسی درگاہ ہے جہاں مندر اور مسجد ساتھ ساتھ ہیں۔ مندر میں ہندو پوجا کرتے ہیں اور مسجد میں مسلمان نماز پڑھتے ہیں جبکہ ان دونوں عبادت گھروں کے بیچ اڈیرو لال کا مزار ہے۔ اڈیرو لال کے حوالے سے ہندو اور مسلمان اپنی اپنی روایات بیان کرتے ہیں لیکن آج تک کبھی اس بات پر کوئی فساد نہیں ہوا۔ اڈیرو لال کی پیدائش کے حوالے سے دو روایتیں معروف ہیں۔ 19ویں صدی کے تاریخ دان بھیرو مل مہرچند آڈوانی اپنی کتاب ’سندھی بولی جی تاریخ‘ میں لکھتے ہیں کہ اڈیرو لال 1007 میں سندھی کلینڈر کے مطابق نصرپور میں رتن رائی چند لوہانہ کے گھر میں ’چیٹی چنڈ’ کے ماہ میں پیدا ہوئے۔ ’چیٹی چنڈ‘ سندھی کیلینڈر کا مہینہ ہے، جسے سندھی کا نیا سال بھی کہا جاتا ہے۔ چیٹی چنڈ کی ابتدا مارچ اور اپریل کے درمیان ہوتی ہے اور اس ماہ میں سندھ کے لوگ اڈیرو لال کا میلہ اور ان کی سالگرہ بھی مناتے ہیں۔ آڈوانی اپنی ایک اور کتاب ’قدیم سندھ‘ جبکہ ’حیدرآباد جی تاریخ‘ کے مصنف حسین بادشاہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ٹنڈو آدم کسی زمانے میں نصرپور کا حصہ تھا، یہ مغل سلطنت کے دور میں انتظامی ضلع رہا جبکہ دریائے سندھ اس وقت مٹیاری سے گزرتا تھا۔ مٹیاری بھی نصرپور کا حصہ تھا۔ جب دریا نے اپنا رُخ تبدیل کیا تو ٹنڈو آدم کا جغرافیہ بھی تبدیل ہو گیا۔ لیکن اڈیرو لال سے ایک اور دلچسپ کہانی بھی جڑی ہے، جس کے مطابق ٹھٹھہ میں ایک ظالم حکمران مرکھ شاہ تھا، جو 10ویں صدی میں لوگوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر معمور تھا۔ مظالم سے تنگ آ کر ہندوؤں نے دریائے سندھ کے کنارے مذببی رسومات ادا کر کے عبادتیں شروع کر دیں اور خدا کو مدد کے لیے پکارا۔یہ بھی پڑھیےگاؤں جو پاکستان کا ’ویٹیکن سٹی‘ کہلاتا ہےبلھا! کی جاناں میں کون؟ ایک قبر مگر دعویدار تین مذاہبسات بہنوں کی درگاہ جہاں آج بھی خواتین منتیں لے کر آتی ہیں40 روز بعد ایک نوجون گھڑ سوار نمودار ہوا اور اس نے مرکھ شاہ سے کہا کہ وہ معصوم لوگوں پر مظالم ڈھانا بند کرے۔ اس کے 40 برس بعد، آڈوانی کے مطابق ایک لڑکارتن چند بھائی بند کے گھر نصرپو میں پیدا ہوا، جس کا نام ’اڈیرو لال‘ رکھا گیا۔ اڈیرو لال نام کے بارے میں ایک خیال یہ ہے کہ یہ سنسکرت کے لفظ اڈو سے اخذ کیا گیا ہے، جس کے معنی ’پانی‘ ہے، بعد میں یہ لفظ تبدیل ہو کر ’اڈر‘ بن گیا جبکہ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ یہ لفط سندھی لفظ ’اڈر‘ ہے، جس کے معنی ’اڑنا‘ ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور قصہ جو اڈیرو لال سے منسوب کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اڈیرو لال کی والدہ نے انھیں اپنا دودھ پلانے سے قبل دریائے سندھ کے پانی کے چند قطرے منھ میں ڈالے تھے۔ اسی وجہ سے اڈیرو لال پانی وارو پیر، ’دریا جو اوتار‘ یا ’پلے وارو پیر‘ کہلاتے ہیں لیکن وہ عام طور پر جھولے لال کے نام سے مشہور ہیں۔آج بھی اڈیرو لال کو ہندو اور مسلمان بنا کسی تفریق کے اپنا ’مرشد‘ مانتے ہیں۔ ہر سال اپریل کے مہینے میں انڈیا اور دیگر ممالک میں بسنے والے ان کے عقیدت مند میلے میں آتے ہیں، جس کا تمام تر انتظام درگاہ کے منتظم ہندو اور مسلمان مل کر کرتے ہیں۔یہاں ہندو مسلم ہر قسم کی رسومات میں شریک ہوتے ہیں اور اڈیرو لال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ وہ درگاہ پر ’بھجن‘ اور ’پنجڑا‘ گاتے ہیں۔ ان تمام تر رسومات کی شروعات دیا جلا کر کی جاتی ہے، اس کے بعد عقیدت مند ایک بڑا سا تھال سجاتے ہیں، جس میں مٹھایاں، پھل اور گلاب رکھے جاتے ہیں، اس کے بعد دریائے سندھ کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔ان میں سے ایک رسم کو ’بہرانو‘ کہا جاتا ہے۔ جس میں پیتل کی ایک جھوٹی سی تھالی میں دیا جلایا جاتا ہے اور آٹے کے پیڑے، مصری کی ڈلیاں، اگر بتیاں اور مٹھایاں رکھی جاتی ہیں۔ اس موقع پر ڈانڈیا ڈانس بھی کیا جاتا ہے، جو اس رسم کا اہم ترین حصہ ہے۔ سفید، پیلے اور نیلے رنگ میں سجی ہوئی اس درگاہ میں پیلو کا ایک درخت آج بھی موجود ہے جس کے بارے میں اڈیرو کے عقیدت مندوں کا کہنا ہے کہ آج سے کئی سال قبل اس درخت سے شکر نکلتی تھی لیکن اس کہانی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ درخت آج بھی موجود ہے مگر شکر کھانے کو نہیں ملتی۔اڈیرو لال کے مزار والا کمرہ شیشے سے بنا ہوا ہے اور چھت میں بادگیر لگے ہوئے ہیں، جن میں سے ٹھنڈی ہوا کا آسانی سے گزر ہوتا ہے اور دیواروں میں دیا جلانے کی کافی جگہیں ہیں جہاں دیے جلتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اڈیرو لال کے استعمال کی اشیا بھی موجود ہیں جن میں ایک لکڑی کا جوتا بھی ہے، جسے ’چاکھڑی‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں چندے کے لیے ایک ڈبہ ہے، جس میں مندر اور مسجد دونوں کے لیے چندہ جمع کیا جاتا ہے۔ درگاہ متولی عبداللہ شیخ نے بتایا کہ ’دہائیوں سے ہم ہندوؤں کے ساتھ سکون سے رہ رہے ہیں۔ یہ درگاہ ہمیں امن اور رواداری کا درس دیتی ہے اور ہم اس کے ماننے والے ہیں۔‘’جب بھی یہاں میلہ لگتا ہے تو ہندو برادری مسجد اور درگاہ کے لیے بھی چندہ دیتی ہے۔ اسی طرح یہ ہمارے فرائض میں شامل ہے کہ ہم مندر کی دیکھ بھال کریں۔ یہاں کسی قسم کی تفریق نہیں کیونکہ یہ نہ صرف اڈیرو لال درگاہ کی تعیلمات ہیں بلکہ سندھ میں بسنے والے سبھی لوگ مذہبی روادرای کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔‘محقق و ادیب نور احمد جنجھی کا کہنا ہے کہ ’یہ درگاہ درحقیقت ایک خانقاہ ہے۔ جس کی تعمیر کا نمونہ مغلیہ طرز تعمیر سے ملتا جلتا ہے۔ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ کس سنہ میں تعمیر ہوئی۔ یہ ہندو مسلمانوں کا مشترکہ ورثہ ہے جس میں مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اس کی مزید تعمیر کروائی تھی۔‘’لہٰذا یہ ایک قلعہ نما عمارت بھی دکھائی دیتی ہے۔ یہ تعمیر کردہ عمارت ایک خانقاہ سے ایک ایسی مذہبی رواداری والی عمارت میں تبدیل ہو چکی ہے جس میں دونوں عقیدوں کے ماننے والے موجود ہیں۔ درگاہ سے قبل یہاں ایک چھوٹی سی عمارت تھی جسے شاہ جہاں بادشاہ نے مزید بڑھایا۔‘نور احمد جنجھی مزید کہتے ہیں ’سندھ میں ایسی جو بھی درگاہیں یا خانقاہیں ہیں، انھیں اتنا بہتر کیا جائے کہ امن پیدا ہو سکے کیونکہ یہاں مختلف عقائد کے اثرات رہے ہیں۔ یہ درگاہ بقائے باہمی کا اہم ترین مظہر ہے۔‘اڈیرو لال کے مزار پر آئے ایک عقیدت مند نے کہا کہ ’ہمارے لیے اڈیرو لال کسی مسیحا سے کم نہیں۔ جب بھی میری زندگی میں کوئی مشکل گھڑی آتی ہے تو میں یہاں آتا ہوں۔‘’اس بار ہم اپنے بیٹوں کی شادی کے لیے آئے ہیں تاکہ اڈیرو لال سے رحمتیں ہم پر برستی رہیں۔ یہ ہماری ایک رسم ہے جو ہمارے آباؤ اجداد سے چلی آ رہی ہے اور اب ہماری نئی نسل بھی اسی نقش قدم پر چل رہی ہے۔‘اڈیرو لال کے شیو مندر میں لوگ شادی سے قبل دولہا کو یہاں زیارت اور ماتھا ٹیکنے کی رسم ادا کرنے کے لیے لاتے ہیں۔ جہاں کافی موج مستی کی جاتی ہے اور دولہا کے کپڑے پھاڑے جاتے ہیں۔ یہ رسم خوشی کے اظہار کے لیے کی جاتی ہے۔مزید پڑھیےیہ بھی پڑھیے مسلمان نہیں سکھ ہیں اس درگاہ کے خادم سات بہنوں کی درگاہ جہاں آج بھی خواتین منتیں لے کر آتی ہیں’کیا پتہ تھا کہ زندگی کی آخری دھمال ہو گی‘اڈیرو لال جہاں لوگوں کے لیے روحانی سکون کا ایک مسکن ہے تو دوسری جانب یہاں آنے والے یہ شکایت بهی کرتے ہیں کہ انھیں یہاں حاضری دینے کے لیے کئی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ انڈیا سے آنے والوں کو ویزے میں کئی دشواریاں حائل ہیں۔ ننکانہ صاحب میں جس طرح سکھوں کے لیے سہولیات پیدا کی گئی ہیں اسی طرح اڈیرو لال کی زیارت کرنے والے اپنے لیے بھی ایسا ہی مطالبہ کرتے ہیں تاکہ اڈیرو لال کی درگاہ جو کہ سندھ میں مذہبی ہم آہنگی کا سب سے بڑا مظہر بنا ہوا ہے، اسے دیکھنے کے لیے دنیا کے تمام لوگوں کے لیے کوئی روکاٹ باقی نہ رہے۔
توشہ خانہ کیا ہے اور کون سے سابق حکمران تحائف کے معاملے پر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس میں الزامات ثابت ہونے پر سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔توشہ خانہ کیا ہے؟توشہ خانہ یا سٹیٹ ریپازیٹری کا نام تو آپ نے اس سارے معاملے کے دوران بار بار سنا ہو گا۔ یہ دراصل ایک ایسا سرکاری محکمہ ہے جہاں دوسری ریاستوں کے دوروں پر جانے والے حکمران یا دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو ملنے والے قیمتی تحائف جمع کیے جاتے ہیں۔کسی بھی غیر ملکی دورے کے دوران وزارتِ خارجہ کے اہلکار ان تحائف کا اندراج کرتے ہیں اور ملک واپسی پر ان کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے۔یہاں جمع ہونے والے تحائف یادگار کے طور پر رکھے جاتے ہیں یا کابینہ کی منظوری سے انھیں فروحت کر دیا جاتا ہے۔پاکستان کے قوانین کے مطابق اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔جن تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زائد ہوتی ہے، انھیں مقررہ قیمت کا 50 فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 2020 سے قبل یہ قیمت 20 فیصد تھی تاہم تحریک انصاف کے دور میں اسے 20 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا تھا۔ان تحائف میں عام طور پر مہنگی گھڑیاں، سونے اور ہیرے سے بنے زیوارت، مخلتف ڈیکوریشن پیسز، سوینیرز، ہیرے جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل ہیں۔ان تحائف کی نیلامی کا طریقۂ کار کیا ہے؟بی بی سی کے نامہ نگار اعظم خان کے مطابق حکمرانوں کی جانب سے توشہ خانہ میں جمع کروائے گئے تحائف حکومت کے بنائے ہوئے قواعد کے تحت ہی فروخت کیے جا سکتے ہیں۔اگر کوئی سربراہِ مملکت چاہے تو وہ ملنے والے کسی تحفے کو مخصوص رقم ادا کر کے اپنے پاس رکھ سکتا ہے مگر پاکستان اور انڈیا میں ایسے تحائف کی نیلامی بھی کی جاتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والا پیسہ ریاست کے خزانے میں جاتا ہے۔کابینہ ڈویژن کے حکام کے مطابق یہ نیلامی ہر سال ہونا ہوتی ہے لیکن سالانہ بنیادوں پر ایسا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ ایک برس کے دوران سربراہان مملکت اور وزرا کے دوروں میں اتنے تحائف نہیں ملتے کہ ہر برس نیلامی کا انعقاد کیا جا سکے۔سربراہان مملکت اور وزرا کو ملنے والے تحائف اور توشہ خانہ میں ان کے اندراج کے بعد سٹیٹ بینک سے باقاعدہ ان کی مارکیٹ قیمت کا تعین کروایا جاتا ہے اور نیلامی کی جاتی ہے۔حکام کے مطابق اگر سربراہان مملکت یا وزرا یہ تحائف نہیں رکھتے تو پھر ان تحائف کی فہرست تیار کر کے انھیں توشہ خانہ قوانین کے مطابق سرکاری ملازمین اور فوج کے افسران کو نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔نیلامی کی قیمت کا تعین دوبارہ ایف بی آر اور سٹیٹ بینک سے کروایا جاتا ہے اور ان میں سے چند اشیا کی قیمت کو مارکیٹ ویلیو سے کچھ کم رکھا جاتا ہے جبکہ چند ایسے تحائف جو کسی خاص سربراہ ملک کی جانب سے ملے ہو ان کی اہمیت اور اعزازی مالیت کے تحت ان کی قیمت مارکیٹ سے زیادہ رکھی جاتی ہے۔یہ بھی پڑھیےتوشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان پر الزامات ثابت، قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قراردوست ممالک کے تحائف کی تفصیلات ظاہر کرنے سے ’قومی مفاد‘ کیسے متاثر ہوتا ہے؟تحائف کی نیلامی سے ’کیا مہنگائی کنٹرول ہو جائے گی؟‘ توشہ خانہ کیس میں نواز شریف کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاریتوشہ خانہ قوانین کے مطابق ان تحائف پر پہلا حق اس کا ہے جس کو یہ تحفہ ملا ہوتا ہے، اگر وہ اسے نہیں لیتے تو پھر سرکاری ملازمین اور فوج کے اہلکاروں کے لیے نیلامی کی جاتی ہے۔ اگر اس نیلامی سے جو اشیا بچ جائیں تو انھیں عام عوام کے لیے نیلامی میں رکھ دیا جاتا ہے۔جو بھی فوجی یا سرکاری ملازم ان قیمتی اشیا کو خریدتے ہیں انھیں اپنی ذرائع آمدن ڈیکلیر کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر لاگو ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔توشہ خانے سے تحائف لینے پر کون سے سابق حکمران مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔۔؟ پاکستان کے تین سابق حکمرانوں کو اس وقت توشہ خانے سے غیر قانونی طور پر تحائف حاصل کرنے پر مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ان میں سابق وزرائے اعظم نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری شامل ہیں۔توشہ خانہ سے قیمتی کاروں سے متعلق خلاف ضابطہ خریداری نیب کا وہ خاص ریفرنس بن گیا جس میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت پر ملی بھگت، گٹھ جوڑ اور پارٹنرشپ کے الزامات عائد کرتے ہوئے انھیں ایک ہی ریفرنس میں ملزم نامزد کر دیا ہے۔ نیب ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم تھے تو انھوں نے قوانین میں نرمی پیدا کر کے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو توشہ خانہ سے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے حکومتی توشہ خانہ سے تحفے میں ملنے والی گاڑیوں کی غیر قانونی طریقے سے خریداری کے مقدمے میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔نیب کے ریفرنس کے مطابق آصف زرداری نے بطور صدر متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو 750 'Li' 2005، لیکس جیپ 2007 اور لیبیا سے تحفے ملنے والی بی ایم ڈبلیو 760 Li 2008 توشہ خانہ سے خریدی ہیں۔نیب نے دعویٰ کیا ہے کہ آصف زرداری نے ان قیمتی گاڑیوں کی قیمت منی لانڈرنگ والے جعلی بینک اکاؤنٹس سے ادا کی ہے۔ ریفرنس میں ان بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں جن سے مبینہ طور پر آصف زرداری نے ادائیگیاں کی ہیں۔ریفرنس کے مطابق آصف زرداری یہ گاڑیاں توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے خود استعمال کر رہے ہیں، انھوں نے عوامی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔
Thursday, October 20, 2022
اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری
اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کر دیا۔الیکشن کمیشن کے مطابق اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات 24 دسمبر کو ہوں گے جس کے لیے امیدوار 7 سے 11 نومبر تک اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراسکیں گے۔ اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کے لیے 14 نومبر کو امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کی جائے گی۔
آصف علی زرداری کی بریت کے خلاف اپیلیں خارج
اسلام آباد : سابق صدر آصف علی زرداری کی بریت کے خلاف اپیلیں خارج کر دی گئیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق صدر آصف علی زرداری کی بریت کے خلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیلیں واپس لینے کی درخواست بھی منظور کر رہے ہیں اور نیب کی اپیلیں میرٹ پر خارج کر رہے ہیں کیونکہ نیب کی اپیلیں میرٹ پر بنتی ہی نہیں تھیں، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ نیب کے پاس میرٹ پر کوئی کیس نہیں ہے، نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم نے کیسز واپس لینے کی درخواست دائر کی ہے اور اپیل میرٹ پر نہیں بنتی اس لیے تو متعلقہ اتھارٹی نے اپیلیں واپس لینے کی منظوری دی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے کئی بار کہا کہ یہ اپیل میرٹ پر بھی نہیں بنتی، کیا نیب نے کوئی انکوائری کی کہ کیس کا ریکارڈ کہاں گیا-؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب کی اپیلیں واپس لینے کی درخواست بھی منظور کر رہے ہیں، نیب نے درخواست میں کہا تھا کہ اپیلوں کی مزید پراسیکیوشن ایک لاحاصل مشق ہو گی اور آصف زرداری کے خلاف دستاویزات کی فوٹو کاپیاں مشکل سے ریکارڈ پر ہیں، دستیاب دستاویزی شواہد قانون شہادت کے مطابق نہیں، یاد رہے کہ آصف زرداری اُرسس ٹریکٹر، پولو گراؤنڈ اور ایس ایس جی کو ٹیکنا میں بری ہوئے تھے جبکہ نیب نے آصف زرداری کی بریت کو 2015 سے چیلنج کر رکھا تھا،
Wednesday, October 19, 2022
بے نظیر بھٹو کی حفاظت کیلئے جانوں کی قربانیاں دینے والے 177 شہدا یاد ہیں، آصفہ بھٹو
کراچی: چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی ہمشیرہ آصفہ بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہمیں آج بھی وہ 177 شہدا یاد ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر ان کی حفاظت کی تھی۔سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کی صاحبزادی آصفہ بھٹو نے یہ بات یوم شہدائے کار ساز کے موقع پر یادگار شہدا پہ پھول چڑھانے اور فاتحہ خوانی کرنے کے بعد موجود ذرائع ابلاغ سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے کہی۔اس موقع پر پی پی سندھ کے سیکریڑی جنرل وقار مہدی سمیت پارٹی رہنماؤں و کارکنان اور شہدا کے لواحقین کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔آصفہ بھٹو زرداری نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ ہم شہدائے کارساز کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ہمیشہ انہیں یاد رکھیں گے۔
عمران خان کیخلاف توہین عدالت کی درخواست سماعت کیلئے مقرر
سپریم کورٹ میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کر لی گئی۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ 20 اکتوبر کو سماعت کرے گا۔
اسلام آباد سمیت ملک کے بعض علاقوں میں بارش کا امکان
موسم کا حال بتانے والوں کے مطابق کل ملک کے کئی مقامات پر بارش اور پہاڑوں پر برف باری کا امکان ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق کل سےکشمیر، گلگت بلتستان ، بالائی خیبر پختونخوا، اسلا م آباد اور بالائی پنجاب میں آندھی، تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ بارش جبکہ بلند پہاڑوں پر برفباری کا امکان ہے۔گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم خشک رہا تاہم بالا کوٹ اور راولا کوٹ میں گرج چمک کے ساتھ بارش ہوئی۔سب سے زیادہ بارش خیبر پختونخوا میں بالا کوٹ 01، کشمیر میں راو لا کوٹ میں02 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی۔
پاکستان جلد وسط ایشیائی ریاستوں کا سربراہی اجلاس منعقد کرے گا، وزیر اعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان جلد وسط ایشیائی ریاستوں کا سربراہی اجلاس منعقد کرے گا۔ اعلامیے کے مطابق انہوں نے یہ بات اپنی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران کی، اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ کو قازقستان کے دورے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایشیائی ریاستوں کے سربراہانِ مملکت سے تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں، زرعی اجناس، گیس، ریلوے، روڈ، انفراسٹرکچر اور توانائی راہداریوں پر گفتگو کی، پاکستان جلد اسلام آباد میں وسط ایشیائی ریاستوں کا سربراہی اجلاس منعقد کرے گا۔ اعلامیے کے مطابق وزیراعظم کی قائم کردہ کمیٹیوں کی سفارشات کی روشنی میں ان روابط کا ایک جامع لائحہ عمل بھی پیش کیا جائے گا۔
Tuesday, October 11, 2022
بچہ باپ کا انتظار کرتا رہ گیا ۔۔ پولیس اور ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ایک اور بہادر اہلکار نے قربانی دے دی
بچہ باپ کا انتظار کرتا رہ گیا، پولیس اور ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ایک اور بہادر پولیس اہلکار نے قربانی دے دی،
شہید کا مرتبہ کسی بھی بڑے اعزازی مرتبے سے اونچا ہے، پاکستان کا ہر فوجی اپنے ملک کی خاطر جان قربان کرنے کا جذبہ لیے سوتا اور جاگتا ہے اور ہر ممکنہ کوشش کرتا ہے کہ ملک کو کالی بھییڑوں سے بچا کر محفوظ رکھے، پاکپتن میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان آپس میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کی وجہ سے 1 پولیس اہلکار شہید جبکہ 4 ڈاکو مارے گئے، تفصیلات کے مطابق پاکپتن پولیس کے سب انسپکٹر سرور اکرم ڈاکوؤں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئے ہیں، شہید سرور اکرم نے 2015 میں پولیس سروس جوائن کی تھی وہ ایک کمسن بیٹے کے والد بھی تھے۔ ڈاکوؤں سے مقابلے کے دوران پنجاب پولیس اہلکاروں نے بھرپور کارروائی کی، اس دوران کچھ ڈاکو بھاگ نکلے ہیں جن کو پکڑنے کے لئے سرچ آپریشن بھی کیا جا رہا ہے، شہید سرور اپنے 5 سالہ بیٹے کو گھر سے یہ کہہ کر نکلے تھے بیٹا تم گھر کا خیال رکھنا میں واپس آؤں گا تو تمہیں شکار کرنا سکھاؤں گا، کم سن بچہ اپنے والد کی راہ تکتا رہا لیکن اس کا یہ انتظار اب صرف انتظار ہی رہ گیا،
Monday, October 10, 2022
دفعہ 144 کیخلاف درخواست سنیں یا نہیں؟ فیصلہ محفوظ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے دفعہ 144 قانون کے خلافا درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں دفعہ 144 کے قانون کے خلاف اسد عمر کی درخواست پر سماعت ہوئی، درخواست گزار اسد عمر کے جانب سے بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ اس جماعت کی دو صوبوں میں حکومت ہے، کیا ادھر کبھی دفعہ 144 نافذ نہیں کی گئی۔۔؟ لا اینڈ آرڈر کا معاملہ ایگزیکٹو نے دیکھنا ہے جس میں عدالت کبھی مداخلت نہیں کرے گی، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ کیا پی ٹی آئی کی دو صوبوں میں حکومت نہیں جہاں دفعہ 144 کا اطلاق ہوتا ہے۔۔۔؟ جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی کیا اسلام آباد میں دفعہ 144 کا نفاذ نہیں رہا ؟ انہوں نے کہا ہے کہ پہلے پنجاب اور خیبرپختونخوا جا کر یہ قانون اسمبلی سے ختم کرائیں، صوبائی اسمبلیوں سے قانون ختم کرا کے یہاں آ جائیں، وکیل درخواست گزار نے کہا دفعہ 144 کا نفاذ پرامن احتجاج روکنے کے لیے غیرآئینی قانون ہے، پٹیشنر اس عدالت کے دائرہ اختیار میں رہنے والا شہری ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ابتدائی دلائل سننے کے بعد دفعہ 144 قانون کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا،
Sunday, October 09, 2022
ملک بھر میں عید میلاد النبیؐ مذہبی عقیدت و احترام سے منائی جارہی ہے
Saturday, October 08, 2022
ضمنی انتخابات 90 روز کیلئے ملتوی کیے جائیں، وزارت داخلہ کا الیکشن کمیشن کو خط
وزارت داخلہ نے الیکشن کمیشن سے ضمنی انتخابات نوے روز کیلئے ملتوی کرنے کی درخواست کردی۔اس ضمن میں وزارت داخلہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی ادارے سیلاب متاثرہ علاقوں میں مصروف ہیں،مرکز اور صوبے بھی مصروف عمل ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض اور دیگر مسائل درپیش ہیں،سیاسی جماعت 12 سے 17 اکتوبر کے درمیان اسلام آباد پر قبضے کی کوشش کرنا چاہتی ہے، اسلام آباد کے تحفظ کیلئے زیادہ سے زیادہ نفری لگانا مجبوری ہوگی۔وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ الیکشن کیلئے مطلوبہ سیکیورٹی فراہم کرنا ممکن نہیں ہوگا لہذا الیکشن کمیشن اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ضمنی انتخابات ملتوی کر دے۔خط میں موقف اپنایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن سیلاب کی وجہ سےپہلےبھی بلدیاتی اورضمنی انتخابات ملتوی کرچکا ہے۔
ضمنی انتخابات 90 روز کیلئے ملتوی کیے جائیں، وزارت داخلہ کا الیکشن کمیشن کو خط
ضمنی انتخابات 90 روز کیلئے ملتوی کیے جائیں، وزارت داخلہ کا الیکشن کمیشن کو خط

وزارت داخلہ نے الیکشن کمیشن سے ضمنی انتخابات نوے روز کیلئے ملتوی کرنے کی درخواست کردی۔اس ضمن میں وزارت داخلہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی ادارے سیلاب متاثرہ علاقوں میں مصروف ہیں،مرکز اور صوبے بھی مصروف عمل ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض اور دیگر مسائل درپیش ہیں،سیاسی جماعت 12 سے 17 اکتوبر کے درمیان اسلام آباد پر قبضے کی کوشش کرنا چاہتی ہے، اسلام آباد کے تحفظ کیلئے زیادہ سے زیادہ نفری لگانا مجبوری ہوگی۔وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ الیکشن کیلئے مطلوبہ سیکیورٹی فراہم کرنا ممکن نہیں ہوگا لہذا الیکشن کمیشن اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ضمنی انتخابات ملتوی کر دے۔خط میں موقف اپنایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن سیلاب کی وجہ سےپہلےبھی بلدیاتی اورضمنی انتخابات ملتوی کرچکا ہے۔
Thursday, October 06, 2022
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: پی ٹی آئی ارکان کا اپنے ہی صدر کے خطاب کا بائیکاٹ
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: پی ٹی آئی ارکان کا اپنے ہی صدر کے خطاب کا بائیکاٹ
اسلام آباد: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر ملکت عارف علوی کے خطاب کے موقع پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی غیر اعلانیہ بائیکاٹ کردیا، صدر مملکت عارف علوی کے خطاب کے دوران ایوان تقریباً خالی رہا اور 442 ارکان کے ایوان میں صرف 14 اراکین اسمبلی موجود تھے جو کہ صدر کے خطاب سے عدم دلچسپی ظاہر کرتے رہے، اسپیکر کی جانب سے اراکین کو نشستوں پر جانے کی ہدایت بھی کی جاتی رہی، صدر مملکت نے اراکین کی عدم توجہ کے باوجود اپنا خطاب جاری رکھا، اس دوران ایوان میں پی ٹی آئی کا کوئی بھی ایم این اے یا سینیٹر موجود نہیں تھا تاہم پی ٹی آئی کے چند منحرف اراکین ایوان میں موجود تھے، ارکان پارلیمنٹ تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ موجودہ اسمبلی کو نہیں مانتے اس لیے بائیکاٹ کیا، مشترکہ اجلاس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی کر رہے ہیں، انہیں بھی نہیں مانتے، مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے بھی صدر مملکت کے خطاب کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ کیا،
Sunday, October 02, 2022
سیلاب کے باعث ایک ماہ سے بند ٹرین سروس بحال
سیلاب کے باعث ایک ماہ سے بند رہنے والی ٹرین سروس بحال کر دی گئی۔کراچی سے لاہور مسافر ٹرینیں آج سے چلیں گی ترجمان ریلوے کے مطابق، پشاور سے کراچی تک پورا آپریشن بحال ہوگا، کراچی سے کچھ دیر بعد رحمان بابا ایکسپریس اور لاہور سے خیبر میل چلے گی، ریلوے حکام کی جانب سے کراچی تک کا کرایہ بھی بڑھا دیا گیا ہے، اکانومی کلاس کا 1800 روپے میں ملنے والا ٹکٹ اب 2400 روپے میں ملے گا،
Subscribe to:
Comments (Atom)
Featured Post
ایران کا صبح سویرے اسرائیل پر ایک اور بڑا حملہ، بلیسٹک، ہائپر سونک میزائلوں اور ڈرونز کا استعمال، 8 افراد زخمی، 200 سے زائد زخمی
ایران نے اسرائیلی لڑاکا طیاروں کو تیل فراہم کرنے والی تنصیبات کو نشانہ بنایا، حملے سے حیفہ میں ریفائنریز میں آگ لگ گئی وعدہ صادق سوم کے تحت...
-
حب (نامہ نگار) حبکو پاور پلانٹ گوٹھ قادر بخش گدور کے قریب فائرنگ کرکے پالاری برادری کے دو سگے بھائیوں کو قتل کردیا گیا، مقتول سگ...
-
محکمہ اطلاعات سندہ جامشورو، 4 مارچ 2021 ڈسٹرکٹ انفارميشن آفيس جامشورو کے سابق اسٹينوگرافر عبدالرزاق خاصخيلی کے اچانک انتقال پر ...
-
گھوٹکی میں ساوند اور سندرانی قبیلے کے درمیان چلنے والا تنازع دو سال بعد جرگے کے ذریعے حل ہوگیا، میڈیا رپورٹس کے مطابق تنازع کا ح...